احساس پروگرام تاحال قانونی حیثیت سے محروم

اپ ڈیٹ 28 جون 2021
حکومت کا کہنا ہے کہ احساس پروگرام بی آئی ایس پی سے زیادہ بڑا سماجی تحفظ کا پروگرام ہے—فائل فوٹو: اے پی پی
حکومت کا کہنا ہے کہ احساس پروگرام بی آئی ایس پی سے زیادہ بڑا سماجی تحفظ کا پروگرام ہے—فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: حالانکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کو سماجی تحفظ کے اپنے فلیگ شپ پروگرام احساس میں تبدیل کردیا ہے لیکن اس پروگرام سے متعلق سرکاری خط و کتابت اور بینکنگ ٹرانزیکشن اب بھی بی آئی ایس پی کے نام پر ہوتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات سامنے آئی کہ احساس پروگرام کی کوئی قانونی یا آئینی حیثیت نہیں ہے کیوں کہ حکومت کو بی آئی ایس پی کو احساس میں تبدیل کرنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے جو پارلیمنٹ کے ذریعے متعارف کروایا گیا تھا۔

نہ صرف موجودہ بلکہ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت نے بھی بی آئی ایس پی کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن سیاسی دباؤ کی وجہ سے نہ کرسکی۔

یہ بھی پڑھیں: ’ذاتی حیثیت میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام میں تبدیلی نہیں چاہتا‘

دوسری جانب پی ٹی آئی حکومت کا کہنا تھا کہ احساس پروگرام بی آئی ایس پی سے زیادہ بڑا سماجی تحفظ کا پروگرام ہے جس کے 37 عناصر ہیں۔

بی آئی ایس پی کے ایک سینئر عہدیدرا نے بتایا کہ احساس پروگرام وزارت تخفیف غربت کے سماجی تحفظ ڈویژن کے تحت چلایا جارہا ہے جس کی سربراہی وزیراعظم کی معاون خصوصی ثانیہ نشتر کررہی ہیں اور وہ بی آئی ایس پی کی بھی چیئرپرسن ہیں۔

تاہم عہدیدار نے کہا کہ بی آئی ایس پی ملک کا واحد سماجی تحفظ کا پروگرام ہے جس کو آئینی تحفظ حاصل ہے اس لیے احساس سے متعلق سرکاری خط و کتابت بی آئی ایس پی کے لیٹر ہیڈز سے ہی کی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ ضرورت مند افراد کو چیکس کا اجرا بھی بی آئی ایس پی کے بینک اکاؤنٹس کے ذریعے ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں:ڈیٹا بیس کے مربوط نظام کی بدولت احساس پروگرام سے کرپشن ختم ہوئی، وزیراعظم

بی آئی ایس پی کو سال 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سابق صدر آصف علی زرداری کے مشورے پر متعارف کروایا تھا۔

یہ پروگرام سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے نام سے منسوب ہے، جس کے تحت بی آئی ایس پی میں رجسٹرڈ غریب گھرانوں کو ماہانہ 2 ہزار روپے دیے جاتے تھے لیکن پی ٹی آئی حکومت سے اسے بڑھا کر 3 ہزار روپے کردیا تھا۔

جب بی آئی ایس پی کے ترجمان سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ پروگرام سے متعلق سوالات کا اس وقت تک جواب نہیں دے سکتے جب تک بی آئی ایس پی کی چیئرپرسن اس کی اجازت نہ دے دیں۔

ادھر ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے جلد میڈیا کو بریف کریں گی۔

یہ بھی پڑھیں:حکومت کا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 8لاکھ افراد کو ہٹانے کا دفاع

پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ان کی حکومت نے غریب خواتین کی مالی خودمختاری کے لیے سماجی تحفظ کے منصوبے کے طور پر پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام متعارف کروایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پروگرام اور اس کے لوگو کو پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعے تحفظ حاصل ہے اور اس میں پارلیمنٹ کے ذریعے ہی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2016 کے اوائل میں بی آئی ایس پی ملک سے غربت کم کرنے کا سب سے وسیع پروگرام بن گیا تھا جس سے 54 لاکھ سے زائد گھرانے مستفید ہورہے تھے اور معاشرے میں خواتین کا مقام مضبوط ہورہا تھا۔

رہنما پی پی پی نے کہا کہ 'ماضی میں بھی اس کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن عقل کام آگئی اور ایسا نہیں کیا گیا'۔

مزید پڑھیں: ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل نہیں کررہے‘

خیال رہے کہ پی ٹی آئی حکومت بی آئی ایس پی کے ڈیٹا سے 8 لاکھ 'جعلی افراد' کو نکال چکی ہے اور ضرورت مندوں کا نیا ڈیٹا مرتب کررہی ہے۔

یہ بات بھی سامنے آئی کہ پی ٹی آئی حکومت باضابطہ اور آئینی طور پر بی آئی ایس پی کو احساس پروگرام میں تبدیل کرنے کی خواہاں تھی لیکن متوقع سیاسی ردِ عمل کی وجہ سے ایسا کرنے سے گریز کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں