قبائلی اضلاع کیلئے آئی ڈی اے سے 30 کروڑ ڈالر کی امداد طلب

اپ ڈیٹ 28 جون 2021
اس رقم کو بنیادی خدمات کی فراہمی بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا— فائل فوٹو: اے ایف پی
اس رقم کو بنیادی خدمات کی فراہمی بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: وفاقی حکومت، خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں بنیادی سہولیات کا معیار اور رسائی بہتر بنانے کے لیے عالمی بینک کے انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ایسوسی ایشن (آئی ڈی اے) سے 30 کروڑ ڈالر امداد حاصل کر رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان اضلاع کے انضمام کے بعد یہاں کے رہائشیوں نے صاف پانی، تحفظ خوراک، صحت اور تعلیم کے حوالے سے بہتر سہولیات کی توقعات میں اضافہ ظاہر کیا تھا۔

سال 2018 میں ضم ہونے والے علاقوں کو خیبر پختونخوا کے قانونی نظام اور حکومت کے ماتحت کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: فاٹا کا انضمام تو ہوگیا مگر ترقیاتی ایمرجنسی کی ضرورت ہے

اس منصوبے کا نام 'خیبرپختونخوا رورل انویسٹمنٹ اینڈ انسٹیٹیوشنل سپورٹ' ہے جس میں تعاون کے 3 شعبوں پر توجہ دی جائے گی۔

جس میں دیہی بنیادی ڈھانچے کے فرق کو دور کرنے کے لیے کمیونٹی انفرا اسٹرکچر گرانٹ، طے کردہ معیار کے خلاف خدمات کے اہم شعبوں میں بنیادی خدمات کی فراہمی پر شہریوں کی نگرانی اور مقامی صلاحیت کو فروغ دینے کے لیے ادارہ جاتی ترقی اور برادری کے متحرک ہونے کے علاوہ شفافیت، احتساب کو مضبوط بنانا اور مقامی ترقی کے لیے محکموں کی مقامی کمیونٹیز کے ساتھ شراکت داری کی صلاحیت شامل ہے۔

ڈان کے پاس منصوبے کے دستاویز کے مطابق پورے ملک کے مقابلے میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کی صورتحال سب سے خراب ہے، جہاں 22 لاکھ خواتین میں سے 56 فیصد کے شناختی کارڈز ہی موجود نہیں۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان اور قبائلی افراد کے دل اور دماغ کی جیت

اس بات کا بھی خطرہ موجود ہے کہ دور دراز اور تاریخی طور پر پسماندہ اضلاع مثلاً کوہستان، ٹانک، ڈیرہ اسمٰعیل خان، بٹگرام، دیر بالا، شانگلہ اور ہنگو جنہیں کم اور بکھری ہوئی آبادی کی وجہ سے صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ میں کم حصہ ملتا تھا انہیں شاید اس منصوبے سے بھی کم فائدہ پہنچے۔

دور دراز ہونے، ٹرانسپورٹ کے ڈھانچے کے فقدان، سہولیات کی صورتحال کے علاوہ قدامت پسند اور پدر شاہی سماجی ڈھانچے کی وجہ سے ان علاقوں کی برادریوں میں خواتین زیادہ تر تعلیم اور بنیادی صحت کی دیکھ بھال حاصل کرنے سے محروم رہتی ہیں۔

یہ قبائلی علاقے 27 ہزار مربع کلومیٹرز پر مشتمل ہیں جو 7 اضلاع میں بٹے ہوئے ہیں، ہر ضلع میں ایک مختلف قبائلی رنگ اور انتظامی ہیڈکوارٹرز ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قبائلی علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے ایک کھرب روپے مختص

یہاں زیادہ تر پختون افراد مقیم ہیں، ان اضلاع میں 2 درجن سے زیادہ پختون قبائل آباد ہیں اور زیادہ تر علاقوں میں چند بڑے قبیلوں کا غلبہ ہے۔

اراضی، قدرتی وسائل پر دہائیوں تک چلنے والے جھگڑے اور دشمنیاں عام ہیں، اس منصوبے میں ان مقامی سطح کے تنازعات کے انتظام کے لیے ایک حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہوگی۔

خیبرپختونخوا کے پلاننگ ڈپارٹمنٹ کے مطابق یہ پروگرام 15 اضلاع میں دیہی کمیونٹیز کے لیے ہوگا جہاں خدمات کا بڑا فقدان ہے اس میں صوبے کے 8 دیگر اضلاع جبکہ 7 قبائلی اضلاع شامل ہیں۔

جغرافیائی توجہ کا جواز اس حقیقت سے ہے کہ ان اضلاع میں دیہی برادریوں کو انسانی ترقی کا سب سے خراب ہونا ہے اور ان کے رقبے اور دور دراز ہونے کی وجہ سے مرکزی دھارے میں شامل خدمات کی فراہمی کے طریقہ کار کے ذریعہ شامل ہونے کا کم سے کم امکان ہے۔

10 سال سے زائد عرصے تک خیبرپختونخوا کو ان ترجیحات کو حل کرنے کے لیے وفاقی حکومت کا تعاون حاصل رہے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں