قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کا بجٹ کثرت رائے سے منظور

وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کردہ ترمیمی بل پر اپوزیشن نے سخت مخالفت کی ہے—فوٹو: ڈان نیوز
وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کردہ ترمیمی بل پر اپوزیشن نے سخت مخالفت کی ہے—فوٹو: ڈان نیوز

قومی اسمبلی میں نئے مالی سال 22-2021 کا بجٹ اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔

ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کی صدارت میں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا اور وزیر اعظم عمران خان کی موجودگی میں وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کردہ ترمیمی بل پر اپوزیشن نے سخت مخالفت کی۔

فنانس ترمیمی بل کی تحریک کے حق میں 172 جبکہ مخالفت میں 138 ووٹ پڑے جس کے بعد قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ نے بل کی شق وار منظوری کے لیے مسودہ پڑھ کر سنایا۔

قومی اسمبلی میں فنانس بل کی شق وار منظوری کا عمل مکمل ہوا اور اسپیکر نے بجٹ کی منظوری کے لیے وائس ووٹ کیا اور بجٹ کو منظور کر لیا گیا۔

اجلاس میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف موجود نہیں تھے۔

مزید پڑھیں: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق تین بل منظور، اپوزیشن کا احتجاج

اپوزیشن نے وائس ووٹ کی مخالفت نہیں کی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ان کے پاس اسے مسترد کرنے کے لیے درکار ووٹ نہیں ہیں۔

جس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بدھ تک ملتوی کردیا گیا۔

اس سے قبل اپوزیشن کی جانب سے ترمیم پیش کی گئی جس پر ووٹنگ کے بعد انہیں مسترد کردیا گیا جبکہ حکومتی ترامیم کو منظور کرلیا گیا۔

فنانس بل میں ترمیم کے ذریعے نئی شق کا بھی اضافہ کیا گیا اور حکومتی ترمیم کی اپوزیشن نے بھی مخالفت نہیں کی جبکہ ترمیم کے تحت ارکان اسمبلی کو اب ائیر ٹکٹس کے بجائے واؤچر دیے جائیں گے۔

نئی شق کے اضافے کی ترمیم رانا قاسم نون نے پیش کی تھی۔

اس دوران وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے مسلم لیگ (ق) کے رہنما طارق بشیر چیمہ سے سوال کیا کہ آپ کے اراکین کہاں ہیں۔

جس پر طارق بشیر چیمہ نے جواب دیا کہ ہمارے تمام اراکین اسمبلی ہال میں موجود ہیں اور انہوں نے تمام مسلم لیگ (ق) کے اراکین کو گن کر پرویز خٹک کو تسلی کرائی۔

فنانس ترمیمی بل پیش کرنے سے قبل ہی ایوان زیریں میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اور سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ ایوان میں پہنچ گئے تھے اور اپوزیشن اراکین نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا۔

مزید پڑھیں:وفاقی بجٹ میں صوبوں کیلئے صحت سے متعلق کوئی اسکیم نہیں، مرتضیٰ وہاب

اپوزیشن اور بعض حکومتی اراکین نے باری باری خورشید شاہ سے ملاقات کی جو پروڈکشن آرڈر پر رہائی ملنے کے بعد اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔

اسی دوران پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری بھی قومی اسمبلی پہنچ گئے جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری کی صاحبزادی آصفہ بھٹو قومی اسمبلی کی مہمانوں کی گیلری میں موجود تھیں۔

صرف باتیں نہیں عمل بھی کرتے ہیں، شوکت ترین

وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے بجٹ پر تنقید کے جواب میں کہا کہ یہ اعداد و شمار موجود ہیں اور ہم کرکے دکھائیں گے کیونکہ ہم صرف باتیں کرنے والوں میں سے نہیں ہیں، عملی اقدام بھی اٹھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر مہنگائی کی بات کی جائے تو مہنگائی کی شرح 7 فیصد ہے اور سابقہ حکومتوں کے وقت بھی 7 فیصد تھی لیکن خوراک پر مہنگائی بڑھی ہے کیونکہ سابقہ حکومتوں نے زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کی تھی۔

شوکت ترین ایوان سے خطاب کررہے ہیں—فوٹو: ڈان نیوز
شوکت ترین ایوان سے خطاب کررہے ہیں—فوٹو: ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں چینی اور دیگر اشیا ضروری درآمد کرنی پڑتی ہیں اور عالمی منڈی میں مہنگائی کی شرح گزشتہ 10 برس میں اتنی نہیں تھی جتنی آج ہے۔

شوکت ترین نے کہا کہ خوراک سے متعلق مہنگائی کا صرف ایک ہی حل ہے کہ اس کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے، مالی سال 2018 میں زراعت کے لیے ایک ارب 60 کروڑ روپے رکھا گیا تھا جبکہ موجودہ بجٹ میں 63 ارب روپے رکھا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: مالی سال 22-2021 کا وفاقی بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا

شوکت ترین نے کہا کہ 'اپوزیشن جماعتیں 20 ارب ڈالر کا خسارہ چھوڑ کر گئیں اور اس کو سنبھالنے کے لیے آئی ایم ایف جانا پڑا، آئی ایم ایف نے شرائط عائد کیں، معیشت میں سکڑاؤ پیدا ہوا اور اس دوران کووڈ 19 کی وبا شروع ہوگئی'۔

انہوں نے اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'میں میرٹ والا شخص ہوں اس لیے میرٹ کی بنیاد پر تنقید کریں'۔

شوکت ترین نے کہا کہ 'اس وقت ہمارے پاس ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی تفصیلات آگئی ہیں جنہوں نے کبھی ٹیکس نہیں دیا اور اس کے نتیجے میں ہماری جی ڈی پی 10 فیصد کے گرد ہی گھوم رہی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ ڈیری مصنوعات، انٹرنیٹ، ایس ایم ایس، پراویڈنٹ فنڈ پر ٹیکس نہیں لگا رہے جبکہ کپاس پر ٹیکس نہیں لگایا لیکن کپاس پر جننگ فیکٹری سے ٹیکس لیا جائے گا۔

احساس ہیلتھ کارڈ بہت بڑا اسکینڈل ثابت ہوگا، خورشید شاہ

پڑوڈکشن آرڈر کے بعد قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ خطاب کے دوران خورشید شاہ نے کہا کہ آج غریب کے لیے ادویات خریدنا مشکل ہے اور حکومت کی جانب سے ہیلتھ کارڈ تقسیم کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، اس ایوان میں کہہ رہا ہوں کہ ہیلتھ کارڈ کا بہت بڑا اسکینڈل سامنے آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ 'کیونکہ جو کام ہورہا ہے اور ہسپتال اور 'بندے' کے درمیان ہے، ادویات 500 فیصد مہنگی ہوگئی ہیں، بغیر کسی خوشامد کے کہوں گا کہ طبی سہولیات فراہم کرنے میں سندھ کو لاکھ مرتبہ سلام ہے۔

خورشید شاہ نے بھی ایوان میں شریک ہوئے—فوٹو: ڈان نیوز
خورشید شاہ نے بھی ایوان میں شریک ہوئے—فوٹو: ڈان نیوز

خورشید شاہ نے کہا کہ سندھ کے ہسپتالوں میں افغانستان سے مریض آتے ہیں، لاکھوں کے آپریشن یہاں مفت ہوتے ہیں اور ان سے ان کا شجرہ نصب نہیں پوچھا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ زرعی شعبے میں تحقیق کا فقدان پہلے سے ہے اور اب کھاد کسان کی قوت خرید سے باہر ہے، یہاں فی ایکڑ 30 من گندم کی پیداوار ہے اور ہم زرعی ملک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی کا حکومت سے افغان صورتحال پر پارلیمنٹ میں بریفنگ کا مطالبہ

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ اُمید تھی کہ وزیر خزانہ ٹیکس فری بجٹ دیں گے، موجودہ حکومت بھاری ٹیکس لگا کر بجٹ پاس کررہی ہے اور بعد میں پریشان ہوتے پھریں گے۔

سید خورشید شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کو دیکھ کر شکر ادا کیا کہ میں جیل میں ہوں کیونکہ ہم نے پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کی ہے، آپ نے عوام کو کون سا چہرہ دکھایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہمارا چہرہ ایسا ہونا چاہے کہ عوام کہیں کہ عوام نمائندے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جو باتیں کی ہیں اس پر عمل نہیں ہوگا'۔

ان ڈائریکٹ کے بجائے ڈائریکٹ ٹیکس ہونے چاہئیں، نوید قمر

اپوزیشن نشستوں پر موجود پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر میں بحث کا حصہ بنتے ہوئے حکومت کے ٹیکسیشن کے عمل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلا واسطہ محصولات میں امیر اور غریب کی تفریق کے بغیر سب کو برابر ٹیکس دینا ہوتا ہے۔

سید نوید قمر نے کہا کہ زیادہ آمدن والے افراد سے ٹیکس وصولی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے تاکہ معاشرے کے نیم متوسط اور متوسط طقبے پر ٹیکس کا زیادہ بوجھ نہ پڑے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف اے ٹی ایف سے متعلق ایک اور بل سینیٹ میں مسترد

ان کا کہنا تھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تاکہ ٹیکس کی ادائیگی میں اضافہ ہو اور لوگوں کا اعتماد اداروں پر قائم ہو۔

سید نوید قمر نے کہا کہ اس وقت ملک کا کاروباری طبقہ پہلے ہی قومی احتساب بیورو (نیب) سے تنگ ہے اور اب ایف بی آر کو گرفتاری کے اختیارات دیے جا رہے ہیں اور کاروباری طبقہ کہے گا ایف بی آر سے بچاؤ، نیب کے حوالے کر دو۔

انہوں نے کہا کہ موبائل فون آج کل کی عام ضرورت ہے جبکہ موبائل فون کالز پر ٹیکس لگانے سے عام آدمی متاثر ہو گا۔

شوکت ترین کی باتوں، دعووں اور فنانس بل میں تضاد ہے، عائشہ غوث

مسلم لیگ (ن) کی رہنما ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ وزیر خزانہ شوکت ترین کی باتوں، دعووں اور فنانس بل میں تضاد ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مالی سال 21-2020 کا وفاقی بجٹ

انہوں نے کہا کہ آئل ریفائنریز کو جو مراعات دی گئی تھی وہ واپس لے لی گئی ہیں جبکہ ٹیکسیشن کے نظام کو سہل بنانا پڑے گا کیونکہ ملک میں کاروبار کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس گزاروں کو ہراساں کرنے کے واقعات بڑھ جائیں گے اور انکم ٹیکس سے متعلق ترامیم ٹیکسیشن کے نظام کو مشکل بنا دیں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں