چیف جسٹس کیخلاف توہین آمیز بیان: ملزم کا معافی نامہ مسترد، فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 02 جولائ 2021
رہنما پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ پریشانی کی وجہ سے معلوم نہیں تھا کیا بول دیا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ
رہنما پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ پریشانی کی وجہ سے معلوم نہیں تھا کیا بول دیا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کےخلاف نازیبا زبان استعمال کرنے والے پیپلزپارٹی کے رہنما مسعود الرحمٰن کا معافی نامہ مسترد کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 4 رکنی بینچ نے توہین آمیز بیان کی ویڈیو پر لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت کی۔

دوران سماعت مسعود الرحمٰن نے کہا ہے کہ میری 2 بیویاں اور7 بچے ہیں، اکیلا کمانے والا ہوں، عدالت کے پاؤں پکڑتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:چیف جسٹس کے خلاف بات کرتے وقت اپنے حواس میں نہیں تھا، رہنما پیپلز پارٹی

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے تھے کہ عدالت بلائے تو اوقات یاد دلاؤں گا، عدالت نے بلا لیا ہے اب ہمیں اوقات دکھائیں۔

ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ نہال ہاشمی، طلال چوہدری اور دانیال عزیز سمیت تمام کیسز کا بھی جائزہ لیں گے۔

مسعود الرحمٰن نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے تحریری طور پر معافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ عدالتوں اور اداروں کا احترام کرتے ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جو گفتگو آپ نے کی وہ کس کو متاثر کرنے کے لیے تھی؟ ایف آئی اے کھوج لگائے کس کے کہنے پر تقریر کی گئی، سوچے سمجھے منصوبے کے بغیر ایسی تقریر ممکن نہیں۔

رہنما پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ والدہ کی وفات اور گھریلو جھگڑوں سے پریشان ہوں، پریشانی کی وجہ سے معلوم نہیں تھا کیا بول دیا۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس نے طلال چوہدری کی تقریر پر توہین عدالت کا نوٹس بھجوادیا

معافی نامے میں رہنما پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ججز والد کے درجے کے برابر ہیں مجھے معاف کر دیں، جس طریقے سے عدالت حکم دے معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ سب کچھ بڑی بڑی باتیں کرنے سے پہلے سوچنا تھا، چیف جسٹس پر حرام کی کمائی کا الزام کیسے عائد کیا؟ کس بنیاد پر چیف جسٹس کو سیکٹر انچارج کہا؟

انہوں نے مزید کہا کہ آپ کو ایٹم بم اور میزائل ٹیکنالوجی کا تو بخوبی علم تھا، چیف جسٹس کا ایٹم بم اور میزائل سے کیا تعلق؟ ایسے تو ہر کوئی توہین آمیز تقریر کرکے معافی مانگ لے گا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزم نے اعتراف جرم کر لیا، اب شواہد کی ضرورت نہیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت آئین و قانون کے مطابق ہی چلے گی۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آپ نے چیف جسٹس کو سیاسی جماعت کا سیکٹر انچارج کہا یہ سب باتیں کس نے آپ کو کہیں؟

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ میں توڑ پھوڑ، وکلا کےخلاف توہین عدالت کا کیس سماعت کیلئے مقرر

جس پر مسعودالرحمٰن عباسی نے کہا کہ کسی نے کچھ نہیں کہا، سب باتیں خود میں نے کہیں، مجھ سے غلطی ہوگئی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ بتائے گی کہ مسعود الرحمٰن عباسی نے یہ تقریر کیوں کی؟ آپ ایک معزز شہری ہیں اپنی عزت و وقار برقرار رکھیں، عدالت قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔

دورانِ سماعت وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام نے بتایا کہ مسعود الرحمٰن عباسی سے تفتیش کر رہے ہیں، عدالت سے 3 روز کا ریمانڈ لیا ہوا ہے، جو بھی مسعود الرحمٰن عباسی کے پیچھے ہوا اس کے ساتھ نرمی نہیں کریں گے،۔

عدالت نے کیس میں اٹارنی جنرل کو پراسیکیوٹر مقرر کرتے ہوئے کہا کہ بینچ کی دستیابی پر کیس سماعت کےلیے مقرر کریں گے۔

خیال رہے کہ سینیئر سول جج عامر عزیز خان نے چیف جسٹس کے خلاف توہین آمیز بیان دینے ہر پیپلز پارٹی کراچی کے عہدیدار مسعود الرحمٰن کو 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کیا تھا، رہنما پیپلز پارٹی کو گزشتہ ہفتے کو بدھ کی رات ایف آئی اے نے گرفتار کیا تھا۔

مزید پڑھیں:ججز کےخلاف توہین آمیز ویڈیو پر ملزم افتخارالدین کی معافی مسترد، توہین عدالت کا نوٹس

قبل ازیں 23 جون کو سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کے خلاف مسعود الرحمٰن کے توہین آمیز بیان کا نوٹس لیا تھا جس کی سماعت کے بعد رہنما پیپلز پارٹی نے اعتراف کیا تھا کہ وہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں اور ان سے غلطی ہوگئی۔

ادھر ایف آئی اے نے بھی سپریم کورٹ میں عبوری رپورٹ جمع کروادی جس میں کہا گیا کہ مسعود الرحمٰن کی جانب سے عدلیہ کے بارے میں توہیں آمیز بیان کی ویڈیو حقیقی اور غیر تدوین شدہ ہے اور ویڈیو اب تک سوشل میڈیا کی ویب سائٹس پر موجود ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ویڈیو یا دورانیہ ایک منٹ 15 سیکنڈ ہے جسے پہلے فیس بک پر اپلوڈ کیا گیا اور بعدازاں مختلف لوگوں نے یوٹیوب سمیت مختلف ویب سائٹ پر پوسٹ کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں