طالبان کی کارروائیوں میں تیزی، ایک ہزار سے زائد افغان اہلکار تاجکستان فرار

اپ ڈیٹ 05 جولائ 2021
ملک کے شمالی سرحدی علاقوں میں لگاتار دوسرے دن طالبان نے درجنوں اضلاع پر قبضہ کر لیا— فائل فوٹو: رائٹرز
ملک کے شمالی سرحدی علاقوں میں لگاتار دوسرے دن طالبان نے درجنوں اضلاع پر قبضہ کر لیا— فائل فوٹو: رائٹرز

افغانستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ طالبان ایک کے بعد ایک علاقے پر قبضہ کرتے چلے جا رہے ہیں اور طالبان سے تازہ جھڑپوں کے بعد ایک ہزار سے زائد افغان سیکیورٹی فورسز کے اہلکار پڑوسی ملک تاجکستان فرار ہو گئے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ملک کے شمالی سرحدی علاقوں میں لگاتار دوسرے دن طالبان نے درجنوں اضلاع پر قبضہ کر لیا جس کے بعد مقامی افواج کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے اور وہ مزید بحرانی صورتحال سے دوچار ہو گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: غیر ملکی افواج نے مقررہ تاریخ تک انخلا مکمل نہ کیا تو ردعمل دیں گے، طالبان

تاجکستان فرار ہونے والے اہلکار بدخشاں بٹالین سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس بٹالین کے سپاہی نے اپنے ساتھیوں کے فرار کی وجہ اضافی کمک کی عدم دستیابی کو قرار دیا۔

سپاہی عبدالبشیر نے کہا کہ وہ ہتھیار ڈالنا نہیں چاہتے تھے، انہوں نے کمک بھیجنے کی درخواست کی تھی لیکن ان کے مطالبات کو نظرانداز کردیا گیا۔

یاد رہے کہ امریکا نے رواں سال 11 ستمبر کو افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کا اعلان کر رکھا ہے اور اسی سلسلے میں جمعہ کو امریکا نے افغانستان میں اپنے سب سے بڑے اور اہم اڈے 'بگرام ایئر بیس' کو افغان سیکیورٹی فورسز کے سپرد کردیا تھا۔

تاجکستان کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے کہا کہ طالبان سے جھڑپوں کے بعد ایک ہزار 37 افغان فوجی اپنی جان بچا کر فرار ہوتے ہوئے سابق سوویت سرزمین پر پہنچ چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں طالبان کے حملوں میں اضافہ، قندھار کے اہم ضلع پر بھی قابض

تاجکستان کے محکمہ اطلاعات کی جانب سے شائع بیان کے مطابق اچھے پڑوسیوں کے اصول اور افغانستان کے اندرونی امور میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے افغان فوج کے اہلکاروں کو تاجکستان کی حدود میں داخلے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

ابتدائی جھڑپوں کے بعد ہی افغانستان سیکیورٹی فورسز کے اہلکار تاجکستان میں داخل ہو گئے تھے جہاں طالبان نے دونوں ممالک کے درمیان مزید اہم سرحدی گزرگاہوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

ادھر افغان حکومت نے شمالی علاقوں میں جوابی کارروائی کا ظاہر نہیں کیا ہے اور سیکیورٹی ایڈوائزر حمداللہ موہب نے روس کی خبر رساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں کارروائی شروع کرنے کے حوالے سے غور کیا جا رہا ہے۔

طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے پیش نظر کچھ اڈوں پر اہلکاروں نے کوئی گولی چلائے بغیر یا کسی مزاحمت کرنے کے بجائے فوراً ہتھیار ڈال دیے جس سے شدت پسند تنظیم کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں وہیں اسلحے اور سامان کی رسد کے راستے محدود ہونے کے پیش نظر مقامی سیکیورٹی فورسز کی تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: امریکی افواج نے 20 سال بعد بگرام ایئربیس خالی کردی

کابل میں ایک تجزیہ نگار عطا نوری نے کہا کہ افغانستان فورسز کا مورال گر چکا ہے، طالبان نے جن اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے ان میں وہ شش و پنج کا شکار ہیں کیونکہ طالبان ان علاقوں میں قبائلی عمائدین کو سپاہیوں اور فوجیوں کے پاس بھیج رہے ہیں تاکہ انہیں ہتھیار ڈالنے پر راضی کر سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ افغان حکومت کے لیے ایمرجنسی صورتحال ہے اور انہیں جلد از جلد اپنی جوابی کارروائیوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

امریکا کی جانب سے بگرام ایئر بیس خالی کیے جانے کے بعد طالبان نے ملک کے شمالی حصوں میں اپنی کارروائیوں کو تیز تر کردیا ہے اور صوبہ بدخشاں اور تخر میں اکثر علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اور سرکاری فورسز کے قبضے میں بمشکل دارالحکومت ہی باقی رہ گئے ہیں۔

طالبان کی جانب سے بڑے پیمانے پر کارروائیوں سے طالبان پر نفسیاتی دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے اور اب ملک کے عوام نے اس تمام تر صورتحال پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا پاکستان، دیگر ہمسایہ ممالک کیلئے ایک امتحان

صوبہ ہلمند کے رہائشی محمد بارکزئی نے کہا کہ ہم اس جنگ سے بہت تھک چکے ہیں، آج کم از کم درست چیز ہو رہی ہے اور ایک فریق کو مکمل کنٹرول حاصل کر لینا چاہیے۔

واضح رہے کہ پیر کی صبح ہلمند کے ضلع نوا پر طالبان نے قبضہ کر لیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں