ایک ماہ میں امن کیلئے تحریری منصوبہ پیش کرسکتے ہیں، طالبان

اپ ڈیٹ 06 جولائ 2021
طالبان کا منصوبہ ہے کہ اگلے ماہ تک وہ افغان حکومت کی طرف سے ایک تحریری امن منصوبہ پیش کریں گے۔ - فائل فوٹو:اے پی
طالبان کا منصوبہ ہے کہ اگلے ماہ تک وہ افغان حکومت کی طرف سے ایک تحریری امن منصوبہ پیش کریں گے۔ - فائل فوٹو:اے پی

جہاں طالبان کے ترجمان نے دعوٰی کیا ہے کہ وہ غیر ملکی افواج کی روانگی سے بڑے علاقائی فوائد حاصل کررہے ہیں وہیں ان کا کہنا ہے کہ اگلے ماہ تک افغان حکومت کو امن کے لیے مجوزہ تحریری منصوبہ پیش کرسکتے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے بگرام بیس خالی کرنے کے بعد طالبان کی پیش قدمی کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز کے سیکڑوں اہلکار پڑوسی ملک تاجکستان فرار ہوگئے۔

واضح رہے کہ امریکا نے افغانستان میں تقریباً دو دہائیوں تک جنگ کے بعد 11 ستمبر تک اپنی تمام افواج کو واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان کی کارروائیوں میں تیزی، ایک ہزار سے زائد افغان اہلکار تاجکستان فرار

جہاں بگرام ایئر بیس کی افغان فوج کو حوالگی نے نئے اضلاع پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے طالبان کی مہم میں اضافہ کیا ہے، وہیں طالبان رہنماؤں نے گزشتہ ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان حکومت کے نمائندوں کے ساتھ طویل عرصے سے تعطل کے شکار مذاکرات کو بھی بحال کردیا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے رائٹرز کو بتایا کہ ’آنے والے دنوں میں امن مذاکرات اور امن عمل میں تیزی لائی جائے گی اور توقع کی جارہی ہے کہ وہ ایک اہم مرحلے میں داخل ہوں گے، فطری طور پر یہ امن منصوبوں کے بارے میں ہوگا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ممکنہ طور پر اس مرحلے کو پہنچنے میں ایک مہینہ لگے گا جہاں دونوں فریقین اپنے تحریری امن منصوبوں کو شیئر کریں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ بات چیت کا تازہ ترین دور ایک نازک موڑ پر ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ’جہاں جنگ کے میدان میں ہم (طالبان) کا ہاتھ اوپر ہے وہیں ہم مذاکرات اور بات چیت میں بھی بہت سنجیدہ ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں طالبان کے حملوں میں اضافہ، قندھار کے اہم ضلع پر بھی قابض

طالبان کے نمائندے کے ریمارکس پر رائے دیتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں 40 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کا واحد راستہ بات چیت ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ ’ہم فریقین سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ سنجیدہ مذاکرات میں مشغول ہوں تاکہ افغانستان کے مستقبل کے لیے ایک سیاسی روڈ میپ طے کیا جاسکے جو ایک منصفانہ اور پائیدار تصفیہ کا باعث بنے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’دنیا افغانستان میں طاقت کے استعمال سے بنی حکومت کو قبول نہیں کرے گی، کسی بھی افغان حکومت کے لیے قانونی حیثیت اور امداد اسی صورت میں ممکن ہے جب اس حکومت کو انسانی حقوق کا بنیادی احترام حاصل ہو‘۔

طالبان کا 200 سے زائد اضلاع پر کنٹرول کا دعویٰ

مغربی سیکیورٹی حکام نے طالبان کے بارے میں بتایا کہ باغی افواج نے 100 سے زائد اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ انہیں 34 صوبوں میں 200 سے زائد اضلاع کا کنٹرول حاصل ہے۔

طالبان کی پیش قدمی کے بعد ایک ہزار سے زائد افغان سیکیورٹی اہلکار شمالی سرحد پر تاجکستان میں داخل ہوگئے جبکہ درجنوں اہلکاروں کو طالبان نے پکڑ لیا ہے۔

مزید پڑھیں: 'طالبان نے تشدد اور قبضے کا سلسلہ نہ روکا تو فضائی حملوں کیلئے تیار رہیں'

یاد رہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے بین الافغان مذاکرات کی نگرانی کرنے والے سفارت کار بار بار ہمسایہ ملک پاکستان کی مدد طلب کرتے ہیں تاکہ وہ طالبان رہنماؤں کو تحریری امن منصوبے کی پیش کش پر قائل کرسکیں۔

افغانستان کی وزارت برائے امن امور کی ترجمان نازیہ انوری نے اس بات کی تصدیق کی کہ انٹرا افغان مذاکرات دوبارہ شروع ہوگئے ہیں اور کہا ہے کہ اس کے نمائندے اس بات پر بہت خوش ہیں کہ طالبان کے نمائندے براہ راست اس عمل کو مسترد کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ طالبان ایک ماہ میں ہمیں امن منصوبے کی تحریری دستاویز فراہم کریں گے تاہم مثبت رہنا بہتر ہے، ہمیں اُمید ہے کہ وہ (یہ) پیش کریں گے تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں