کورونا وائرس کی قسم ڈیلٹا جو سب سے پہلے بھارت میں نمودار ہوئی تھی، نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ڈیلٹا قسم جسے بی 16172 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، دنیا کے 90 سے زیادہ ممالک تک پہنچ چکی ہے۔

کورونا کی اس قسم کے بارے میں اب تک جو کچھ معلوم ہوچکا ہے، وہ درج ذیل ہے۔

یہ تیزی سے پھیلتی ہے

پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے مطابق ڈیلٹا قسم جون کے وسط میں برطانیہ میں کووڈ 19 کے 99 فیصد کیسز کا باعث بنی رہی تھی۔

اسی طرح یورپین سینٹر فار ڈیزیز پریونٹٰشن اینڈ کنٹرول کے مطابق اگست مٰں یورپ میں کووڈ 19 کے 90 فیصد کیسز ڈیلٹا کا نتیجہ ہوں گے۔

امریکا میں 19 جون تک کووڈ کے 26 فیصد نئے کیسز کے پیچھے کورونا کی یہی قسم تھی جبکہ یہ شرح 5 جون کو صرف 10 فیصد تھی، یعنی اس سے متاثر کیسز کی شرح میں 2 ہفتوں میں دوگنا سے زیادہ اضافہ ہوا۔

ماہرین کے مطابق برطانوی ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قسم ایلفا قسم کو پیچھے چھوڑ رہی ہے اور شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ زیادہ بہتر طریقے سے پھیل رہی ہے۔

زیادہ متعدی ہے

عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانم گیبریسس نے جولائی 2021 کے آغاز میں کہا تھا کہ ڈیلٹا اب تک کی سب سے زیادہ متعدی قسم ہے۔

کورونا کی اس قسم میں متعدد میوٹیشنز موجود ہیں جن میں سے ایک ایل 452 آر ہے جو انسانی خلیات کو زیادہ آسانی سے متاثر کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

امریکا کے سرجن جنرل ڈاکٹر ویویک مورتھی کے مطابق ہم نے دریافت کیا ہے کہ کورونا کی یہ قسم سب سے زیادہ متعدی ہے اور ایک تحقیق کے مطابق یہ گزشتہ سال برطانیہ میں سامنے آنے والی قسم ایلفا سے 40 سے 60 فیصد زیادہ متعدی ہے۔

ویکسینز سے تحفظ مل سکتا ہے مگر مکمل نہیں

حقیقی زندگی اور لیبارٹری شواہد دونوں سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسنیشن مکمل کرانے والے افراد کو ڈیلٹا قسم سے تحفظ ملتا ہے۔

ڈاکٹر ویویک مورتھی کے مطابق اچھی خبر یہ ہے کہ اگر آپ کی ویکسینیشن ہوچکی ہے یعنی دوسری خوراک کو 2 ہفتے مکمل ہوچکے ہیں تو وائرس کے خلاف آپ کو کافی تحفظ مل چکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ کی ویکسینیشن نہیں ہوئی تو آپ خطرے کی زد میں ہیں۔

تاہم اس وقت دستیاب کوئی بھی کووڈ ویکسین 100 فیصد افادیت نہیں رکھتی تو مکمل ویکسنیشن والے افراد میں بھی بیماری کا امکان ہوسکتا ہے۔

امریکی ماہر ڈاکٹر انتھونی فائوچی کے مطابق ایسا ممکن ہے کہ ویکسنیشن کے بعد بھی لوگوں کو بیماری کا سامنا ہو اور یہی وجہ ہے کہ ڈیلٹا سے نمٹنے کے لیے بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔

امریکا طبی ادارے سی ڈی سی کے ترجمان کے مطابق ویکسنیشن کے باوجود بیماری کا سامنا کرنے والے افراد میں کووڈ کی شدت زیادہ سنگین نہیں ہوتی یا بیماری کا دورانیہ مختصر ہوسکتا ہے۔

احتیاطی تدابیر ڈیلٹا کو پھیلنے سے روکنے میں مددگار

ڈیلٹا میں کچھ بھی ایسا الگ نہیں جو اسے بیماری کو پھیلانے کے حوالے سے دیگر اقسام سے مختلف بناتی ہو، کورونا وائرسز ہوا یا آلودہ سطح سے پھیلتے ہیں۔

سماجی دوری، ہوا کی نکاسی کا اچھا نظام، فیس ماسک کا استعمال، اشیا اور ہاتھوں کی اچھی صفائی جیسے اقدامات ڈیلٹا کو پھیلنے سے روکنے میں بھی مؤثر ہیں۔

ابھی یہ واضح نہیں کہ یہ زیادہ خطرناک ہے یا نہیں

کچھ طبی ماہرین کا خیال ہے کہ ڈیلٹا قسم کورونا کی دیگر اقسام سے زیادہ خطرناک ہے مگر اب تک اس حوالے سے ٹھوس شواہد سامنے نہیں آئے۔

ڈیلٹا میں موجود میوٹیشنز اسے زیادہ متعدی بناتی ہیں اور جسمانی مدافعتی ردعمل سے خود کو چھپانے میں بھی مدد فراہم کرتی ہیں، تاہم یہ بیماری کی شدت کو سنگین بنانے کا باعث ہے یا نہیں ابھی ایسے ٹھوس شواہد نہیں۔

ڈیلٹا قسم میں 2 خطرناک میوٹیشنز ای 484 کے اور این 501 وائے موجود نہیں جو ایلفا، بیٹا اور گیما اقسام میں موجود تھیں۔

ممکنہ طورپر مختلف علامات

برطانوی محققین کا دعویٰ ہے کہ ڈیلٹا کے شکار افراد میں کووڈ کی علامات بھی پرانی اقسام کے مقابلے میں مختلف ہیں۔

کنگز کالج لندن کے پروفیسر ٹم اسپیکٹر دنیا کی سب سے بڑی کورونا وائرس کی علامات کی تحقیق کرنے والی ٹیم کی قیادت کررہے ہیں جس کے لیے زوی کووڈ سیمپٹم اسٹڈی ایپ سے مدد لی جاتی ہے۔

اس ایپ میں اکٹھا کیے گئے ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا کی نئی قسم ڈیلٹا کی علامات 'بگڑے ہوئے نزلے' جیسی محسوس ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ اب مختلف طرح سے کام کررہا ہے اور کسی بگڑے ہوئے نزلے جیسا لگتا ہے، لوگوں کو لگ سکتا ہے کہ انہیں موسمی نزلہ ہے اور وہ باہر گھوم پھر سکتے ہیں، جو ہمارے خیال میں مسائل کی وجہ بن سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ مئی سے ہم نے ایپ استعمال کرنے والے صارفین کی عام ترین علامات کو دیکھا تو وہ پہلے جیسی نہیں تھیں، اس وقت کووڈ کی سرفہرست علامت سردرد ہے جس کسے بعد گلے کی سوجن، پھر ناک بہنا اور بخار ہے۔

پروفیسر ٹم اسپیکٹر نے کہا کہ ڈیلٹا قسم میں کھانسی 5 ویں عام ترین علامت ہے جبکہ سونگھنے کی حس سے محرومی ٹاپ 10 میں بھی شامل نہیں۔

خیال رہے کہ بیشتر ممالک میں کووڈ کی روایتی علامات میں بخار، کھانسی اور سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی کو عام علامات قرار دیا جاتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں