سندھ کا پانی کے حصے میں کمی پر عدالتی تحقیقات کا مطالبہ

10 جولائ 2021
پانی کی قلت کے باعث صوبے میں فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے، وزیر زراعت سندھ  - فائل فوٹو:اے پی پی
پانی کی قلت کے باعث صوبے میں فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے، وزیر زراعت سندھ - فائل فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد: سندھ کے وزیر زراعت محمد اسمٰعیل راہو نے سندھ کو پانی کی سپلائی میں کمی کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پانی کی قلت کے باعث صوبے میں فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسمٰعیل راہو نے اسلام آباد میں سندھ ہاؤس میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان صوبے کے ساتھ ہونے والی عظیم نا انصافی پر خاموش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کا مطالبہ ہے کہ صوبے میں پانی کے اخراج کو کم کرنے کے لیے عدالتی تحقیقات کی جائیں، وفاقی حکومت سندھ کو پانی کی سپلائی میں کمی کی ذمہ دار ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ گزشتہ دو ماہ سے پانی کی سپلائی میں کمی کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے اور اب انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) اور واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) ہمارے موقف کو قبول کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی تحقیقات اس کے ذمہ دار اداروں اور عہدیداروں کا تعین کرے گی ’سندھ کھربوں روپے کی لاگت کا اپنے حصے کا پانی کھو چکا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ارسا نے سندھ کو پانی کی سپلائی میں کمی کے لیے واپڈا کو مورد الزام ٹھہرایا ہے تاہم یہ کیسے ممکن ہے کہ واپڈا نے اپنی خواہش کے مطابق پانی جاری کیا۔

اسمٰعیل راہو نے کہا کہ ’ارسا نے نہ صرف سندھ میں پانی کی قلت کا اعتراف کیا ہے بلکہ پانی کی تقسیم میں بھی ایک بہت بڑی غلطی کی ہے‘۔

صوبائی وزیر زراعت کا کہنا تھا کہ خریف کے موسم کے آغاز پر بھی سندھ کے لیے پانی کا حصہ جاری نہیں کیا جارہا ہے، سندھ کے پانی کا حصہ زبردستی روک دیا گیا ہے تاہم واپڈا اور ارسا یہ دعوی کررہے ہیں کہ سرپلس پانی سندھ میں چھوڑا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوٹری بیراج کے ذریعے 5 ہزار کیوسک پانی جاری کیا جانا چاہیے تاہم ایسی کوئی اتھارٹی نہیں ہے جو ارسا سے اس ناانصافی پر سوال اٹھاسکے۔

کھجور، مرچ کی پیداوار متاثر

صوبائی وزیر نے بتایا کہ صوبے میں کھجوروں اور مرچوں کی پیداوار پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے تباہی کا شکار ہیں اور وفاقی حکومت نے کسانوں کو ہونے والے اس نقصان پر کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چاول کی کاشت ہدف سے کم ہے اور تخمینے کے مطابق 4 لاکھ ہیکٹر رقبے کے مقابلے میں چاول کی کاشت صرف 86 ہزار ہیکٹر رقبے پر کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چاول برآمد کرکے صوبے نے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ حاصل کیا تھا۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ سندھ کے علاوہ خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب میں بھی پانی کی قلت کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’سندھ نے بلوچستان کے پانی کا حصہ چوری نہیں کیا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام صوبوں کو ان کی ضروریات کے مطابق پانی فراہم کیا جانا چاہیے، جب ہم پانی کی جائز تقسیم کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وفاقی حکومت نے متفقہ فارمولے کے بجائے ذرائع ذرائع تجویز کیے، اپنے مفاد کے لیے وفاقی حکومت نے انڈس واٹر ٹریٹی اور دیگر ذرائع سے معذرت کی‘۔

اسمٰعیل راہو نے دعویٰ کیا کہ وفاقی حکومت نے زرعی پیداوار کے اعداد و شمار جاری توڑ مروڑ کر پیش کیے ہیں اور اس نے کاٹن کی 7 لاکھ گانٹھ کی پیداوار کا دعوی کیا جبکہ صرف 56 ہزار گانٹھ کی پیداوار کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ٹماٹروں کی درآمد روکنے کے لیے سندھ کی تجویز کو مسترد کیا اور جب سندھ میں پیدا ہونے والے ٹماٹر مارکیٹ میں آئے تو کاشتکاروں کو 5 روپے فی کلو تک بھی نہیں مل سکا۔

تبصرے (0) بند ہیں