کورونا وائرس کی چوتھی لہر کا خطرہ، سندھ میں نئی پابندیوں کا فیصلہ

لوگوں کو ویکسین کے سرٹیفکیٹ کے بغیر ہسپتالوں کے آؤٹ پیشنٹ ڈپارٹمنٹ (او پی ڈی) جانے کی اجازت نہیں ہوگی، محکمہ صحت سندھ - فائل فوٹو:اے ایف پی
لوگوں کو ویکسین کے سرٹیفکیٹ کے بغیر ہسپتالوں کے آؤٹ پیشنٹ ڈپارٹمنٹ (او پی ڈی) جانے کی اجازت نہیں ہوگی، محکمہ صحت سندھ - فائل فوٹو:اے ایف پی

سندھ حکومت کی جانب سے اپنے ملازمین کی تنخواہوں کو روکنے کے فیصلے کے صرف ایک ماہ بعد صوبائی حکام نے ویکسین نہ لگوانے والے افراد کے لیے کئی سہولیات پر پابندی عائد کردیں جن میں ہسپتالوں میں علاج معالجے یا منتخب سرجری کے ساتھ ساتھ ملازمت کے لیے انٹرویوز بھی شامل ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سرکاری اعلامیے میں محکمہ صحت سندھ نے کہا کہ لوگوں کو ویکسین کے سرٹیفکیٹ کے بغیر ہسپتالوں کے آؤٹ پیشنٹ ڈپارٹمنٹ (او پی ڈی) جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

سندھ کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر ارشاد میمن نے کہا ہے کہ ’جن لوگوں نے ویکسین لگوائی ہیں انہیں منتخب سرجری کی سہولت حاصل کرنے کی اجازت ہوگی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سرکاری اور نجی دونوں ہسپتالوں میں صحت کی سروسز کے لیے کورونا ویکسینیشن سرٹیفکیٹ لازمی ہے، ملازمتوں کے لیے ٹیسٹ اور انٹرویو کے لیے امیدواروں کو چاہیے کہ وہ کورونا ویکسینیشن سرٹیفکیٹ دکھائیں‘۔

مزید پڑھیں: یکم اگست سے ویکسینیشن سرٹیفکیٹ کے بغیر ہوائی سفر پر پابندی عائد

اعلامیے میں کہا گیا کہ تمام سرکاری اور نجی ادارے کورونا وائرس کے حفاظتی ویکسین کے سرٹیفکیٹ چیک کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔

واضح رہے کہ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ جولائی ان سرکاری ملازمین کی تنخواہیں روک دیں جنہوں نے کورونا وائرس کے خلاف ویکسین لگانے سے انکار کیا ہے۔

جون کے پہلے ہفتے میں کووڈ 19 پر بنی صوبائی ٹاسک فورس کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعلی نے کہا تھا کہ ’سرکاری ملازمین جو ویکسین نہیں لگوارہے ان کی جولائی سے تنخواہیں روک دی جائیں گی‘۔

انہوں نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی تھی کہ سرکاری ملازمین کو ویکسین لگانے کے لیے جون کا مہینہ دیا جائے اور انہوں نے کووڈ 19 ویکسین کو لازمی قرار دے دیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’ہمیں چند سخت اقدامات کرکے اپنے شہریوں کو محفوظ بنانا ہے‘۔

حکومت سندھ نے حالیہ اعلان میں ویکسین نہ لگوانے والے افراد کے شادی ہالز، ریسٹورانٹس اور کھانے پینے کے دیگر ہوٹلوں میں داخلے پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔

ڈان کے سوال کے جواب میں محکمہ صحت کے ترجمان عاطف ویگیو نے وضاحت کی کہ یہ پابندیاں جلد ہی نافذ ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیں: جرمنی مکس ویکسین لگانے کی اجازت دینے والا پہلا بڑا ملک

ان کا کہنا تھا کہ ’ڈپٹی کمشنرز کو اختیار ہے کہ وہ موقع پر ہی احکامات جاری کرسکیں جس کے تحت انہوں نے معائنے کا عمل شروع کیا اور کووڈ 19 سرٹیفکیٹ پر ہدایتوں کی خلاف ورزی کرنے والی دکانوں اور ریسٹورانٹس کے خلاف کارروائی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عہدیدار خلاف ورزی پر کسی بھی دکان کو وارننگ دے سکتے ہیں، جرمانہ عائد کر سکتے ہیں یا سیل بھی کرسکتے ہیں‘۔

سوال کیا گیا کہ کیا یہ پابندیاں صوبائی حکومت کی مایوسی کی عکاسی کرتی ہیں کہ صوبے میں زیادہ تر لوگ ویکسین لگوانے سے گریزاں ہیں تو ترجمان نے کہا کہ پابندیاں عام لوگوں کو ویکسین لگوانے کی ضرورت کو سمجھنے میں ترغیب دینے میں مدد دیتی ہیں جبکہ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ کورونا وائرس ویکسینیشن کی شرح خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بہتر ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں لوگ اب بھی کووڈ 19 کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں‘۔

محکمہ صحت کے عہدیداروں کے مطابق فروری سے اب تک صوبے میں 40 لاکھ افراد کورونا وائرس کی ویکسین لگواچکے ہیں۔

طبی بنیادوں پر کورونا وائرس کی ویکسین نہ لگوانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر این سی او سی کی طرف سے کوئی گائیڈ لائنز نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی شخص بوڑھا ہے اور صحت کی پیچیدگیوں کا سامنا کر رہا ہے تو امکان ہے کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت گھر پر گزارتا ہے اور اس وجہ سے دوسروں کے لیے خطرہ نہیں ہوگا‘۔

دوسری جانب سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ اویس شاہ نے کہا ہے کہ صرف حفاظتی ویکسین لگوانے والے افراد کو ہی صوبے میں پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کرنے کی اجازت ہوگی۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ مسافروں کے حفاظتی ویکسین کے سرٹیفکیٹ کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔

صوبائی وزیر نے ٹرانسپورٹرز کو ہدایت دی کہ وہ این سی او سی کے گائیڈ لائنز پر عمل کریں اور صرف ان لوگوں کو ٹکٹ جاری کریں جنہوں نے ویکسینیشن سرٹیفکیٹ دکھائے۔

وزیر نے خبردار کیا کہ ہدایات پر عمل نہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: راولپنڈی میں کورونا وائرس کی 'ڈیلٹا قسم' کے 15 کیسز سامنے آگئے

انہوں نے مزید کہا کہ تمام علاقائی ٹرانسپورٹ سیکرٹریز اور متعلقہ محکموں کو عید کے دوران حکم پر عمل درآمد کی نگرانی کی ہدایت کی گئی ہے۔

پی ایم اے کا رد عمل

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سندھ (پی ایم اے) نے ان پابندیوں کو ’سخت‘ قرار دیتے ہوئے صوبائی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اس زبردستی ویکسینیشن سے جعلی کووڈ 19 کے ویکسینیشن کارڈز کے کاروبار کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے۔

پی ایم اے سندھ کے صدر ڈاکٹر مرزا علی اظہر کا کہنا تھا کہ ویکسین نہ لگوانے والوں پر او پی ڈی کی سروس سے فائدہ اٹھانے سے انکار کرنا قابل قبول نہیں ہے، لوگوں کو ہراساں ہونے کا احساس ہو گا اور وہ ویکسینیشن سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے غلط طریقے استعمال کرسکتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو لوگوں کو ویکسین لگوانے کی ضرورت کو سمجھانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کو لازمی طور پر لچکدار بنانا چاہیے اور اس کی طرف پہلا قدم یہ ہے کہ انہیں یقین دہانی کرائی جائے کہ ویکسین سے کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے،

پی ایم اے کے صدر نے بتایا کہ میڈیا اس موضوع پر پروگرام پیش کرسکتا ہے اور فیملی ڈاکٹرز بھی اس میں مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔

انہوں نے تک نے نشاندہی کی کہ اب تک صوبائی حکومت نے سندھ کی کل آبادی کے صرف 8 فیصد کو ویکسین لگائی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں 80 فیصد آبادی کو ویکسین لگانے کی ضرورت ہے تب ہی ہم اس وائرس سے بچ سکتے ہیں اور اس کام کو زبردستی کے بجائے لوگوں میں آگاہی پیدا کرکے کیا جاسکتا ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں