عدالتی حکم کے باوجود پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی بحالی کا امکان معدوم

اپ ڈیٹ 11 جولائ 2021
ایڈووکیٹ جنرل نے مزید کہا کہ انتخابی حلقوں اور ضلعی کونسلز میں تبدیلیاں کی گئی ہیں — فائل فوٹو: وائٹ اسٹار
ایڈووکیٹ جنرل نے مزید کہا کہ انتخابی حلقوں اور ضلعی کونسلز میں تبدیلیاں کی گئی ہیں — فائل فوٹو: وائٹ اسٹار

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے پنجاب میں بلدیاتی ادارے تحلیل کرنے کے خلاف حکم کے باوجود رواں سال نظام کی مدت پوری ہونے سے قبل اس کی بحالی کا امکان نظر نہیں آرہا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ نے 25 مارچ کو ایک مختصر حکم نامے کے ذریعے صوبے میں بلدیاتی اداروں کی عدم بحالی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ان کی بحالی کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: حکومتِ پنجاب نے بلدیاتی اداروں کو تحلیل کرکے رائے دہندگان کے حقوق ضبط کیے، سپریم کورٹ

حکومت پنجاب نے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ (پی ایل جی اے) 2019 کے سیکشن 3 کے تحت بلدیاتی اداروں کو تحلیل کردیا تھا جبکہ الیکشن، پی ایل جی اے 2013 کے تحت 2015 اور 2016 میں مرحلہ وار ہوئے تھے، منتخب بلدیاتی اداروں کی مدت پانچ سال ہے۔

تاہم صوبائی حکومت نے ’پانچ سال‘ کی جگہ ’21 ماہ‘ کے الفاظ شامل کرکے پی ایل جی اے کے سیکشن 3 (2) میں ترمیم کے بعد گزشتہ برس 2 جولائی کو بلدیاتی اداروں کی مدت اچانک ختم کردی تھی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا تھا کہ بلدیاتی ادارے اپنی مدت پوری کیے بغیر تحلیل نہیں کیے جاسکتے اور اداروں کو تحلیل کرنا آئین کی شقوں کے خلاف ورزی ہے۔

حکومت پنجاب کی جانب سے بلدیاتی اداروں کو چلانے کی اجازت نہ دینے پر بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب حکومت کی بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست

دوسری جانب صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ چونکہ سپریم کورٹ نے پی ایل جی اے 2019 کو مسترد نہیں کیا، لہٰذا ایکٹ 2013 کے تحت منتخب نمائندے نئے ایکٹ کے تحت اختیارات استعمال نہیں کر سکتے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے دعویٰ کیا کہ صوبائی حکومت نے بلدیاتی اداروں کی بحالی سے متعلق عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد کیا ہے۔

انہوں نے بلدیاتی اداروں کے کام سے متعلق امور پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ چونکہ پی ایل جی اے 2019، جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی برقرار ہے، نے بلدیاتی اداروں کے انتخاب اور اس کے کام میں غیر معمولی تبدیلیاں متعارف کروائی ہیں لہٰذا صوبائی حکومت 2013 کے ایکٹ کے تحت دوبارہ ان کو بااختیار نہیں بناسکتی۔

انہوں نے کہا کہ ایکٹ 2019 کے تحت انتخابی عمل کو اسی طرح تبدیل کردیا گیا تھا جیسے 2013 کے ایکٹ کے تحت، اب کسی میئر کا انتخاب منتخب نمائندوں (کونسلرز) کے ذریعے نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان کا انتخاب عام ووٹوں کے ذریعے ہوگا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا پنجاب کے بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم

ایڈووکیٹ جنرل نے مزید کہا کہ انتخابی حلقوں اور ضلعی کونسلز میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ بلدیاتی اداروں کی میعاد ختم ہونے کے بعد ایکٹ 2019 کے تحت ہونے والے آئندہ بلدیاتی انتخابات سے یہ نظام مناسب طریقے سے کام کرنا شروع کردے گا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ہم نے سپریم کورٹ کے سامنے نظرثانی کی درخواست دائر کی ہے جو تین رکنی بینچ کے سامنے زیر التوا ہے۔

دوسری طرف راولپنڈی کے میئر سردار نسیم نے افسردگی کا اظہار کیا کہ حکومت پنجاب نے ابھی تک بلدیاتی اداروں کی بحالی کے لیے کوئی نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ منتخب نمائندوں کے دفاتر کو ابھی بھی تالا لگا ہوا ہے لہٰذا انہوں نے سڑک پر راولپنڈی میونسپل کارپوریشن کا اجلاس کیا۔

سردار نسیم نے کہا کہ منتخب نمائندوں نے حکومت پنجاب کے خلاف سپریم کورٹ کے سامنے توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی اور عدالت عظمیٰ نے صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں