پاک فوج نے 46 افغان فوجیوں کو پاکستان میں محفوظ راستہ فراہم کیا، آئی ایس پی آر

اپ ڈیٹ 26 جولائ 2021
پاک فوج نے متعلقہ معلومات اور ضروری کارروائیوں کے لیے افغان حکام سے رابطہ کیا ہے، آئی ایس پی آر - فائل فوٹو:اے ایف پی
پاک فوج نے متعلقہ معلومات اور ضروری کارروائیوں کے لیے افغان حکام سے رابطہ کیا ہے، آئی ایس پی آر - فائل فوٹو:اے ایف پی

پاک فوج کی جانب سے افغان نیشنل آرمی (اے این اے) اور بارڈر پولیس کے 46 فوجیوں کو ’پناہ اور محفوظ راستہ‘ دیا گیا ہے۔

انٹر سروسس پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ایک بیان میں بتایا گیا کہ ارندو، چترال کے پار اے این اے کے ایک مقامی کمانڈر نے 46 فوجیوں کے لیے مدد کی درخواست کی تھی جن میں 5 افسران بھی شامل تھے کیونکہ ’وہ افغانستان کی بدلتی ہوئی سلامتی کی صورتحال کی وجہ سے پاک افغان سرحد کے ساتھ (اپنی) چیک پوسٹ کو سنبھال نہیں سکتے تھے‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ پاک فوج نے متعلقہ معلومات اور ضروری کارروائیوں کے لیے افغان حکام سے رابطہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں: افغان سیکیورٹی فورسز کی درخواست پر امریکی فضائیہ کا طالبان کے ٹھکانوں پر حملہ

بیان میں کہا گیا کہ ’افغان فوجی رات دیر گئے چترال کے ارندو سیکٹر پہنچے، افغان حکام سے رابطے اور ضروری فوجی طریقہ کار کے بعد 5 افسران سمیت 46 فوجیوں کو پاکستان میں پناہ، محفوظ راستہ دیا گیا ہے‘۔

آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ ’افغان فوجی جوانوں کو فوجی اصولوں کے مطابق کھانا، رہائش اور ضروری طبی امداد فراہم کی گئی ہے‘۔

پاک فوج کے مطابق ’فوجیوں اور افسران کو ضروری طریقہ کار کے بعد باوقار طریقے سے افغان حکومت کو واپس دیا جائے گا‘۔

اسی طرح کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ ’یکم جولائی کو پناہ مانگنے والے 35 افغان فوجیوں کو بھی پاکستان میں محفوظ راستہ دے دیا گیا تھا اور مناسب طریقہ کار کے بعد افغان حکومت کے حوالے کردیا گیا تھا‘۔

وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اس سے قبل ڈان کو بتایا تھا کہ پاکستان نے پاک افغان سرحد کے ساتھ ہی فرنٹیئر کانسٹیبلری، لیویز فورس اور دیگر کو فرنٹ لائن مورچوں سے منتقل کردیا ہے کیونکہ فوج نے ان مورچوں پر کام شروع کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان تنازع کا بھرپور سیاسی تصفیہ چاہتے ہیں، طالبان سربراہ

وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ ’اب نیم فوجی دستوں کو تبدیل کرنے کے بعد فوج کے باقاعدہ دستے سرحد کا انتظام سنبھال رہے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ سرحد پار سے غیر مستحکم صورتحال کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’(افغانستان میں) موجودہ غیر مستحکم صورتحال کی وجہ سے ضروری ہے کہ باقاعدہ فوجی دستے کو سرحد کے ساتھ ہی تعینات کیا جائے‘۔

اس سے قبل جولائی میں شمالی افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کے بعد ایک ہزار سے زائد افغان سیکیورٹی اہلکار سرحد پار تاجکستان فرار ہوگئے تھے۔

طالبان نے شمالی صوبہ بدخشاں کے 6 اہم اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے جو تاجکستان اور چین دونوں کی سرحدوں پر واقع ہیں جس کے بعد ایک ہزار 37 افغان فوجی اہلکار تاجکستان کی اجازت سے سرحد سے فرار ہوگئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں