کورونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا اب تک کی سب سے تیزی سے پھیلنے والی قسم ہے جس نے کووڈ کے بارے میں تصورات کو بدل کر رکھ دیا ہے، یہاں تک کہ ان ممالک میں بھی جہاں کیسز کی کمی کے بعد پابندیوں کو نرم اور معیشتوں کو کھولا جارہا ہے۔

ماہرین طب کے مطابق تاحال ویکسینز سے کورونا وائرس کی کسی بھی قسم سے ہونے والی بیماری کی سنگین شدت اور ہسپتال میں داخلے کے خلاف ٹھوس تحفظ ملتا ہے، اور اس وقت سب سے زیادہ خطرے کی زد میں ویکسنیشن نہ کرانے والے لوگ ہیں۔

مگر بھارت میں سب سے پہلے سامنے آنے والی اس قسم کے بارے میں پریشان کن بات یہ نہیں کہ وہ لوگوں کو بیمار کرسکتی ہے بلکہ یہ ہے کہ یہ کتنی آسانی سے ایک سے دوسرے فرد میں پھیل سکتی ہے، جبکہ تاحال ویکسینیشن نہ کرانے والوں کے لیے یہ زیادہ متعدی اور ہسپتال پہنچانے کا خطرہ بھی بڑھاتی ہے۔

ماہرین کے مطابق ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ قسم ویکسینیشن مکمل کرانے والے افراد کو سابقہ اقسام کے مقابلے میں زیادہ بڑی تعداد میں بیمار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ، ایسے بھی خدشات موجود ہیں کہ ویکسینیشن کے باوجود یہ افراد وائرس کو آگے پھیلا سکتے ہیں۔

برطانیہ میں کورونا وائرس کی اقسام کے جینوم سیکونسز بنانے والی ٹیم کی قیادت کرنے والی شیرون پیکوک کے مطابق 'اس وقت دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ڈیلٹا ہے، جو اب تک کی سب سے تیزی سے پھیلنے والی قسم ہے'۔

وائرسز میں میوٹیشنز کے ذریعے ارتقائی عمل مسلسل جاری رہتا ہے، جس کے باعث نئی اقسام ابھرتی ہیں، کئی بار وہ اصل وائرس سے زیادہ خطرناک بھی ثابت ہوتی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جن ممالک میں ویکسنیشن کی شرح زیادہ ہونے کے بعد فیس ماسک، سماجی دوری اور دیگر احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا، انہیں ڈیلٹا کے پھیلاؤ کے باعث ان کو دوبارہ اپنانے کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

پبلک ہیلتھ انگلینڈ نے 23 جولائی کو کہا تھا کہ برطانیہ میں ہسپتال میں داخل 3692 کووڈ مریض ڈیلٹا سے متاثر ہیں، جن میں سے 58.3 فیصد کی ویکسینیشن نہیں ہوئی جبکہ 22.8 فیصد مکمل ویکسینیشن کراچکے ہیں۔

سنگاپور میں ڈیلٹا قسم سب سے زیادہ عام ہے اور حکومتی عہدیداران نے 23 جولائی کو بتایا کہ وہاں رپورٹ ہونے والے تین چوتھائی کیسز ویکسنیشن کرانے والے افراد کے ہیں، تاہم ان میں سے کوئی بھی بہت زیادہ بیمار نہیں ہوا۔

اسرائیلی طبی حکام کے مطابق اس وقت ہسپتال میں زیرعلاج کووڈ کے 60 فیصد مریض وہ ہیں جن کی ویکسینیشن ہوچکی ہے، ان میں سے بیشتر کی عمریں 60 سال یا اس سے زیادہ ہے اور اکثر پہلے سے کسی بیماری کے شکار ہیں۔

امریکا میں کووڈ کے نئے کیسز میں ڈیلٹا سے متاثر افراد کی تعداد 83 فیصد ہے، تاہم بہت زیادہ بیمار ہونے والے مریضوں میں 97 فیصد ویکسین استعمال نہ کرنے والے افراد ہیں۔

اسرائیل کی بن گورین یونیورسٹی اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ڈائریکٹر نادو ڈیوڈوچ نے بتایا 'ہمیشہ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ کسی جادوئی گولی سے ہمارے تمام مسائل حل ہوجائیں گے مگر کورونا وائرس ہمیں ایک سبق سیکھا رہا ہے'۔

'ہمیں سبق سیکھانے والا'

فائزر ویکسین کو کووڈ 19 کے خلاف چند مؤثر ترین ویکسینز میں سے ایک خیال کیا جاتا ہے، مگر اسرائیل میں یہ ویکسین گزشتہ ایک ماہ کے دوران ڈیلٹا سے علامات والی بیماری سے بچانے میں صرف 41 فیصد تک مؤثر دریافت ہوئی۔

اسرائیلی ماہرین کا کہنا تھا کہ اس ڈیٹا کا مزید تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد حتمی نتیجہ نکالا جانا چاہیے۔

نادو ڈیوڈوچ نے کہا کہ انفرادی طور پر تحفظ بہت ٹھوس ہے، مگر دوسروں تک بیماری کو پھیلانے کے حوالے سے تحفظ کی شرح کم ہے۔

چین میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ڈیلٹا سے متاثر افراد میں وائرس کی اصل قسم کے مقابلے میں ایک ہزار گنا زیادہ وائرل لوڈ ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر آپ اپنے اندر زیادہ مقدار میں وائرس لے کر گھومتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ بہت تیزی سے پھیلنے والی قسم ہے، تاہم اس حوالے سے تحقیقات جاری ہے۔

امریکا کے لاجولا انسٹیٹوٹ فار امیونولوجی کے وائرلوجسٹ شین کورٹی کے مطابق ڈیلٹا قسم برطانیہ میں دریافت ہونے والی ایلفا قسم سے 50 فیصد زیادہ متعدی ہے۔

انہوں نے کہا 'ڈیلٹا دیگر تمام وائرسز کو پیچھے چھوڑ رہا ہے کیونکہ یہ بہت زیادہ افادیت سے پھیل رہا ہے'۔

امریکا کے اسکریپرز ریسرچ انسٹیٹوٹ کے جینومکس ماہر ایرک ٹوپول نے بتایا کہ ڈیلٹا کے شکار افراد بہت کم وقت بعد ہی متعدی ہوجاتے ہیں اور ان میں وائرل ذرات کی مقدار بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا 'یہی وجہ ہے کہ ویکسینز کو چیلنج کا سامنا ہے، ویکسنیشن کرانے والے افراد کو بھی بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ بہت سخت وائرس ہے'۔

امریکا میں ویکسینیشن کی شرح بڑھنے کے بعد فیس ماسک کا استعمال لازمی نہیں رہا اور ایرک ٹوپول نے بتایا 'یہ دودھاری تلوار ہے، جب آپ کو وائرس کی سب سے زیادہ منظم قسم کا سامنا ہو تو پابندیوں کو ختم کرنا سب سے آخری طریقہ ہوگا'۔

امریکا کی ایموری یونیورسٹی کے وبائی امراض کے ماہر کارلوس ڈیل ریو نے کہا کہ جب ویکسینز کو پہلی بار تیار کیا جاتا ہے، تو کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ وہ بیماری کی روک تھام کریں گی، ان کا مقصد ہمیشہ بیماری کی سنگین شدت اور موت کی روک تھام کرنا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاہم کووڈ کی ابتدائی ویکسینز اتنی زیادہ مؤثر ہیں کہ ایسا خیال کیا جانے لگا کہ وہ کورونا کی سابقہ اقسام کے پھیلاؤ کی روک تھام بھی کرسکتی ہیں، جس سے لوگ زیادہ محتاط نہیں رہے۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی کی متعدی امراض کی ماہر ڈاکٹر مونیکا گاندھی نے کہا 'لوگ اس وقت بہت زیادہ مایوس ہیں، کیونکہ انہیں معمولی بیماری سے سو فیصد تحفظ حاصل نہیں، یعنی ویکسنیشن کے باوجود وہ بیمار ہورہے ہیں'۔

مگر ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کووڈ سے ہسپتال میں داخل ہونے والے لگ بھگ تمام مریض وہ ہیں جن کی ویکسینیشن نہیں ہوئی، جو ویکسین کی متاثرکن افادیت کا اظہار ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں