کووڈ کے مریضوں میں بلڈ کلاٹس بننے کی ممکنہ وجہ دریافت

اپ ڈیٹ 29 جولائ 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے خون گاڑھا ہونے یا بلڈ کلاٹس کا خطرہ بھی بڑھتا ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے اور یہ کسی معمے سے کم نہیں تھا۔

اب طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ انہوں نے یہ جان لیا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے جس سے بہتر علاج میں مدد مل سکے گی۔

درحقیقت کووڈ سے بہت زیادہ بیمار افراد میں ورم اور بلڈ کلاٹس کی ممکنہ وجہ وہ اینٹی باڈیز ہوتی ہیں جو جسم اس بیماری سے لڑنے کے لیے تیار کرتا ہے، مگر وہ پھیپھڑوں میں غیرضروری پلیٹلیٹس سرگرمیوں کو متحرک کردیتی ہیں۔

یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں دریافت کی گئی۔

طبی جریدے جرنل بلڈ میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کس طرح کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے بننے والی اینٹی باڈیز جان لیوا بلڈ کلاٹس کا باعث بن جاتی ہیں۔

پلیٹلیٹس خون کے وہ ننھے خلیات ہیں جو جریان خون کو روکنے یا اس کی روک تھام کے لیے کلاٹس بنانے کا کام کرتے ہیں، مگر جب ان خلیات کے افعال متاثر ہوتے ہیں، تو سنگین طبی اثرات جیسے فالج اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھتا ہے۔

تحقیق کے لیے کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار افراد کے جسم میں کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین سے لڑنے کے لیے بننے والی اینٹی باڈیز کے نمونے حاصل کیے گئے اور لیبارٹری میں ان کے کلون تیار کیے گئے۔

محققین نے دریافت کیا کہ ان اینٹی باڈیز کی سطح پر موجود مواد صحت مند افراد کی اینٹی باڈیز سے مختلف ہیں۔

جب صحت مند افراد سے حاصل کی گئی اینٹی باڈیز کی لیبارٹری میں کووڈ کے مریضوں کے خلیات جیسی نقول تیار کی گئیں تو ماہرین نے پلیٹلیٹس سرگرمیوں میں اضافے کا مشاہدہ کیا۔

تحقیقی ٹیم نے یہ بھی دریافت کیا کہ مختلف ادویات کے متحرک اجزا کی مدد سے ایسا ممکن ہے کہ پلیٹلیٹس کو ردعمل سے روک کر یا اس کی سطح میں کمی لائی جاسکے۔

نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اس وقت مدافعتی نظام کے مسائل کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات سے خلیات کو بہت زیادہ متحرک پلیٹلیٹس ردعمل کو کم یا روکا جاسکے۔

امپرئیل کالج لندن اور امپرئیل کالج ہیلتھ کیئر این ایچ ایس ٹرسٹ نےہسپتالوں میں زیرعلاج مریضوں پر ان ادویات کے کلینیکل ٹرائلز شروع کردیئے ہیں تاکہ دیکھا جاسکے کہ ان سے کووڈ کے مریضوں میں بلڈ کلاٹس کو کس حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

اس نئی تحقیق سے برطانیہ میں جاری ٹرائلز کو سائنسی بنیادوں پر سپورٹ ملتی ہے، ابھی ٹرائل کے نتائج تو سامنے نہیں آئے مگر دونوں ٹیموں کی جانب سے اکٹھے مل کر کام کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔

محققین نے بتایا کہ اب تک یہ صرف ہمارا خیال تھا کہ پلیٹلیٹس ممکنہ طور پر کووڈ کے مریضوں میں بلڈ کلاٹس کا باعث بنتے ہیں مگر اب اس حوالے سے شواہد سامنے آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم لیبارٹری میں پلیٹلیٹس پر اپنی تحقیق کے نتائج پر بہت پرجوش ہیں، کیونکہ اس سے اہم میکنزمز کی وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ کیسے اور کیوں کووڈ کے بہت زیادہ بیمار افراد کو خطرناک بلڈ کلاٹس کا سامنا ہوتا ہے اور سب سے اہم کہ کس طرح اس کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔

محققین نے مزید کہا کہ کورونا کی وبا کے آغاز میں ہی یہ واضح ہوگیا تھا کہ اس بیماری سے مدافعتی ردعمل بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے جس سے مختلف پیچیدگیوں بشمول بلڈ کلاٹس کا سامنا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا خیال ہے کہ اس وقت آسانی سے دستیاب ادویات سے کووڈ کی اس پیچیدگی کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے، ہم ابھی تک اپنے ٹرائل کے نتائج کا انتظار کررہے ہیں، اس لیے ابھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان ادویات سے مریضوں کو کس حد تک مدد مل سکتی ہے، مگر ہمیں توقع ہے کہ ایسا ممکن ہوگا۔

خیال رہے کہ بلڈ کلاٹس کا مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب خون گاڑھا ہوجاتا ہے اور شریانوں میں اس کا بہاؤ سست ہوجاتا ہے، ایسا عام طور پر ہاتھوں اور پیروں میں ہوتا ہے مگر پھیپھڑوں، دل یا دماغ کی شریانوں میں بھی ایسا ہوسکتا ہے۔

سنگین کیسز میں یہ مسئلہ جان لیوا ہوتا ہے کیونکہ اس سے فالج، ہارٹ اٹیک، پھیپھڑوں کی رگوں میں خون رک جانا اور دیگر کا خطرہ بڑھتا ہے۔

ویکسینز اور بلڈکلاٹس کا تعلق

یہ واضح رہے کہ کووڈ کے مقابلے میں اس بیماری سے تحفظ فراہم کرنے والی ویکسینز سے بلڈ کلاٹس بننے کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، تاہم کچھ افراد میں یہ مسئلہ پلیٹلیٹس کی اینٹی باڈیز کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔

ایسٹرازینیکا اور جانسن اینڈ جانسن ویکسینز سے لوگوں میں بلڈ کاٹ کی ایک نایاب قسم کے چند کیسز ضرور سامنے آئے ہیں مگر اکثریت کے لیے ویکسین کے فوائد خطرات کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

اس حوالے سے اپریل 2021 میں طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع 2 تحقیقی رپورٹس میں محققین نے دریافت کیا کہ ایسٹرازینیکا ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں ایسی اینٹی باڈیز کی سطح بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جو مدافعتی نظام سے منسلک خلیات کے اجتماع کے خلاف متحرک ہوتی ہیں ، جن کو جسم ویکسین کے ردعمل میں تشکیل یتا ہے۔

یہ اینٹی باڈی پلیٹلیٹ سے چپک جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں خطرناک کلاٹس کا سامنا ہوتا ہے جس سے رگوں اور شریانوں میں خون کی روانی رک جاتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں