چین کا بی بی سی پر سیلاب سے متعلق 'جعلی خبریں نشر' کرنے کا الزام

29 جولائ 2021
چین میں سیلاب کے بعد یینگ ژو شہر میں ایک ریسکیو اہلکار کو گھٹوں تک پانی میں چلتے دیکھا جا سکتا ہے— فوٹو: اے ایف پی
چین میں سیلاب کے بعد یینگ ژو شہر میں ایک ریسکیو اہلکار کو گھٹوں تک پانی میں چلتے دیکھا جا سکتا ہے— فوٹو: اے ایف پی

چین نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے چین میں آنے والے سیلاب سے متعلق 'جعلی خبریں' نشر کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وسطی چین میں تباہ کن سیلابوں کی کوریج پر ادارہ انتہائی غیرمقبول ہوا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق چینی وزارت خارجہ کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب بی بی سی نے رپورٹ کیا تھا کہ قوم پرستوں کے ذریعے صحافیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ ترک کیا جانا چاہیے، جہاں یہ قوم پرست عناصر غیر ملکی میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر متعصبانہ رپورٹنگ کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: چین میں بدتریں بارشیں اور سیلاب، مختلف واقعات میں 33 افراد ہلاک

وسطی صوبہ ہینن میں گزشتہ ہفتے ہونے والی شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے کم از کم 99 افراد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

بی بی سی نے بتایا کہ سیلاب کی کوریج کے دوران ان کے صحافیوں کو آن لائن ہراساں کیا گیا جبکہ دیگر اداروں کے صحافیوں نے بھی حملوں کی شکایت کی ہے جس سے چین میں غیرملکی صحافیوں کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

لیکن چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے جمعرات کو بی بی سی کو 'جعلی نیوز براڈکاسٹنگ کمپنی' قررا دیتے ہوئے کہا کہ برطانوی نشریاتی ادارے نے صحافتی معیار میں ابتری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین پر حملے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ بی بی سی اسی رویے کی مستحق ہے کہ وہ چینی عوام میں غیر مقبول ہو اور بلا وجہ نفرت کی کوئی بات نہیں ہے۔

تصاویر دیکھیں: چین: شدید بارشوں، سیلاب نے تباہی مچادی

منگل کے روز 16 لاکھ فالوورز کی حامل چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کی یوتھ برانچ نے بی بی سی کے رپورٹرز کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے آن لائن تبصرے شائع کیے جس کے بعد لفظوں کی جنگ شروع ہو گئی ہے۔

ہینن کمیونسٹ یوتھ لیگ کے قوم پرستوں کی جانب سے کیے گئے تبصروں میں بی بی سی نمائندوں کو موت کی دھمکیاں دی گئیں۔

گزشتہ ہفتے چین کے شہر ژینگ ژو میں صرف تین دن میں سال کی سب سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی تھی جس سے کم از کم 14 افراد ہلاک اور شہر کے سب وے کے نظام میں سیلابی پانی بھرنے سے 500 سے زائد مسافر پھنس گئے تھے۔

سٹی اور صوبائی عہدیداروں کو احتساب کے مطالبات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ متاثرین میں سے ایک کی اہلیہ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ وہسب وے میٹرو انتظامیہ پر غفلت برتنے کا مقدمہ کریں گی۔

یہ بھی پڑھیں: چین میں بدترین سیلابی صورتحال، 33 دریا اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے

لیکن شفافیت کے مطالبے کے باوجود غیرملکی صحافیوں کو چین میں بڑھتے ہوئے متصبانہ رویے کا سامنا ہے کیونکہ چین کی منفی منظر کشی کے حوالے سے حساسیت اب عروج پر پہنچ چکی ہے۔

غیر ملکی نمائندوں کے چین کے کلب نے ایک بیان میں کہا کہ ژینگ ژو میں نامہ نگاروں کو مقامی مشتعل افراد نے گھیر لیا تھا جبکہ چینی نیوز اسسٹنٹس کو دھمکی آمیز پیغامات موصول ہوئے ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تنظیموں کی بیان بازی چین میں غیر ملکی صحافیوں کی حفاظت کو براہ راست خطرے میں ڈال رہی ہے اور آزادانہ رپورٹنگ کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

اے ایف پی کے نامہ نگاروں کو ژینگ ژو کے عوام نے فوٹیج ڈیلیٹ کرنے پر مجبور کیا اور پانی میں ڈوبی ہوئی سرنگ کے حوالے سے رپورٹگ کرتے ہوئے درجنوں افراد نے گھیر لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: چین میں شدید بارشیں اور سیلاب، مزید 21 ہلاک

تاہم چین وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ غیر ملکی نمائندے چین میں آزادانہ رپورٹنگ کے ماحول سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

البتہ ان کے اس بیان کے برعکس آزاد میڈیا کے لیے آواز اٹھانے والے گروپوں کا کہنا تھا کہ غیرملکی رپورٹرز کے لیے کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے جہاں صحافیوں کا گلیوں چوراہوں میں پیچھا کیا جاتا ہے، آن لائن ہراساں کیا جاتا ہے اور ویزا دینے سے انکار کیا جاتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

ندیم احمد Jul 30, 2021 12:03am
بی بی سی اپنے ملک برطانیہ کو چھوڑ کر دوسرے ممالک کی خبروں کو Exploit کرتا ہے۔