افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج انخلا شروع کرتی ہیں۔ اس کے ٹھیک ایک دن بعد جنرل باجوہ 10 مئی کو کابل پہنچتے ہیں۔ ان کے ساتھ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف سر نکولس پیٹرک کارٹر بھی ہوتے ہیں۔ اہم برطانوی عہدیدار کی موجودگی کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ برطانیہ، پاکستان اور افغانستان میں ضامن بن رہا ہے۔

افغان صدر اشرف غنی بے دریغ پاکستانی کوشش کی تعریف کرتے ہیں۔ بات چیت کو بامعنی قرار دیتے ہوئے اسے مثبت کہتے ہیں۔ اسی دورے میں افغان ہائی کونسل کے عبداللہ عبداللہ سے بھی جنرل باجوہ کی ملاقات ہوتی ہے۔

جنرل باجوہ اس موقعے پر کہتے ہیں کہ پاکستان ایک ایسے پاور شیئرنگ فارمولے کی حمایت کرتا ہے جس میں سب شامل ہوں۔ الیکشن ہوں اور افغان عوام اپنی رائے کا اظہار کرسکیں۔ عبداللہ عبداللہ اس پر ٹوئٹ کرکے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔

مذکورہ بالا باتوں سے آپ جو بھی سمجھے ہیں، اس کی وضاحت کرنا ضروری نہیں۔ دنیا اس موقعے پر کہی ہوئی باتوں پر ہی اصرار کر رہی ہے۔ آپ نے کہا تھا، اب آپ کریں۔ بندہ پوچھ بھی نہیں سکتا کہ حضور یہ سب تو آپ 20 سال میں نہیں کرسکے۔ اب یہ وزن کی پنڈ ہم اٹھائیں؟ لیکن یہ کہہ کر ہماری جان چھوٹ تھوڑی جائے گی۔

آج کے دن کی خبر یہ ہے کہ طالبان افغانستان کے پہلے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کرنے کے قریب ہیں۔ ہلمند صوبے کے 10 میں سے 9 اضلاع طالبان کے کنٹرول میں آچکے ہیں۔ لشکر گاہ کسی وقت بھی سرینڈر ہوسکتا ہے یا شاید نہ ہو کہ لڑائی ابھی جاری ہے۔

لڑائی کا مطلب سمجھنا ہے تو وہ یوں ہے کہ جنوری سے اب تک افغانستان میں ساڑھے 3 لاکھ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی مشکل جاننی ہے تو کرسچن سائنس مانیٹر کی ایک رپورٹ کا مطالعہ کیجیے جس کے مطابق افغان طالبان اب اعلیٰ سطح کے پاکستانی ملٹری عہدیداروں سے ملاقاتوں میں بہت درشت رویہ اختیار کیے رہتے ہیں۔

امریکا کے دورے پر گئے ہوئے پاکستان کے مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے امریکی ہم منصب سے ملاقات کی اور اس کے بعد جو کچھ وہ میڈیا سے بات چیت میں کہتے رہے اس کا لبِ لباب یہ تھا کہ پاکستان مزید افغان مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ امریکی بیان آگیا ہے کہ پاکستان افغان مہاجرین کو قبول کرے۔

مشیر قومی سلامتی معید یوسف اور امریکی ہم منصب جیک سلیوان
مشیر قومی سلامتی معید یوسف اور امریکی ہم منصب جیک سلیوان

افغانستان کے صوبے ہرات میں اقوامِ متحدہ کے ایک کمپاؤنڈ پر حملہ ہوا جس میں ایک افغان سیکیورٹی گارڈ مارا گیا۔ یہ واقعہ عین اس دن ہوتا ہے جس دن پاکستانی مشیر لیفٹیننٹ جنرل فیض کے ہمراہ امریکی ہم منصب سے ملاقات کرتے ہیں۔ امریکی افغانستان میں تشدد کم کرنے کا کہہ رہے ہوں اور ایسے میں یہ کچھ ہو تو ان کی آواز میں دنیا کی آواز بھی شامل ہوجاتی ہے جبکہ ہم منمناتے ہی رہ جائیں گے؟

اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے اس واقعے کی مذمت کی ہے، ساتھ ہی مطالبہ بھی کیا ہے کہ افغانستان میں تشدد میں کمی لائی جائے۔ تمام فریقین سے کہا گیا ہے کہ وہ عالمی انسان دوست قوانین کا احترام کریں اور سویلین کو نشانہ بنانے سے گریز کریں۔

ہمارے لیے اس سے زیادہ نامناسب وقت نہیں ہوسکتا تھا کہ جب ہمارا بھارت 'مہان' سیکیورٹی کونسل کا ایک مہینے کے لیے چیئرمین بھی بن گیا۔ افغان وزیرِ خارجہ حنیف اتمر نے بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور کہا کہ بھارت فوری طور پر سیکیورٹی کونسل کا ایک خصوصی اجلاس بلائے اور اس اجلاس میں افغانستان کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔

اب ہمارے شریک جب ایسا اجلاس بلائیں گے تو اس میں طرح طرح سے ہمارا ذکر کرکے ہماری تعریف پر ہی غزلیں کہیں گے۔ اک دوسرے سے بڑھ کر ہماری باتیں کرنے والوں میں اگر چینی بھی دکھائی دیں تو ہمیں غش وغیرہ نہیں کھانا چاہیے۔ طالبان اس وقت مشن پر ہیں، افغانستان میں موجود ہر ڈیزائن کی عسکری تنظیم ان کی مدد امداد کر رہی ہے۔ ای ٹی آئی ایم کے چینی عسکریت پسند ہوں، اسلامک موؤمنٹ آف ازبکستان والے ہوں یا القاعدہ سب طالبان کی فتوحات میں ان کی مدد امداد فرمانے میں مصروف ہیں۔ اس کا کچھ ذکر ایشیا ٹائم نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔

اس موقعے پر ہی اقوامِ متحدہ نے افغانستان پر اپنی سیکیورٹی رپورٹ جاری کی ہے جس میں عسکری تنظیموں کے نام، تعداد اور علاقوں کی تفصیل لکھی ہے جن میں پاکستانی تنظیموں کا بھی ذکر ہے۔ شدت پسندی اور پاکستان کا ذکر دنیا 'جہاں مامتا وہاں ڈالڈا' والے اصول کے تحت ہی کرتی ہے۔ بس ہمیں گھبرانا نہیں ہے۔

امریکی اس وقت بڑے طریقے سے پاکستان کے ساتھ فاصلہ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ رابطہ، مطالبہ، دباؤ اور جو حربہ بھی انہیں آزمانہ ہو اس کا رُخ پنڈی کی طرف ہی رکھتے ہیں۔ پاکستان کی سول حکومت کو لفٹ ہی نہیں کرواتے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اب تک وزیرِاعظم عمران خان کو فون تک نہیں کیا۔ ویسے انہوں نے دنیا کے کئی دیگر اہم رہنماؤں کو بھی فون نہیں کیا، سعودی ولی عہد کا نمبر بھی ابھی تک نہیں ملایا ہے اور نہ مستقبل قریب میں ایسا کوئی امکان نظر آتا ہے۔

اس فون کال کو لے کر مسئلہ ہم خود ہی بنا رہے ہیں۔ جب معید یوسف نے فنانشل ٹائم کو انٹرویو دیا تو اگلوں نے اس کی ہیڈلائن ہی شکایتی سی لگا دی کہ پاکستانی قومی سلامتی کے مشیر گلہ کررہے ہیں کہ 'بائیڈن کپتان کو کال نہیں کررہے'۔ یہ بھی کہہ دیا کہ 'پھر ہمارے پاس اور آپشن بھی ہیں'۔

فنانشل ٹائم کی اسی رپورٹ میں کچھ تجزیہ کاروں کا یہ خیال بھی لکھا گیا ہے کہ کپتان کو اس لیے لفٹ نہیں کرواتے کہ وہ انہیں طاقتور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا کٹھ پتلی ہی سمجھتے ہیں۔

اس طرح کے اور دو، چار انٹرویو دے کر ایسی مزید عزت افزائی کروا لیں، اگر کوئی کسر باقی محسوس ہوتی ہے تو۔

ویسے کم ہمارا کپتان بھی نہیں ہے۔ جب 2 رکنی اعلیٰ سطح کا امریکی دورہ جاری تھا، انہی دنوں کپتان نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کہ امریکا افغانستان میں میس یعنی گند کرگیا ہے۔ امریکا نے جس طرح اچانک باہر نکلنے کا فیصلہ کیا ہے اب اس کے پاس کوئی بارگیننگ پاور نہیں رہی کہ وہ افغان دھڑوں میں ڈیل کروا سکے۔

ایسے موقع پر ایسا بیان۔

اس بیان کو امریکیوں نے کیسا لیا ہوگا؟ وہ پہلے ہی افغانستان کے حوالے سے ہم پر تپے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں انہیں ناکام وغیرہ بتا کر انہیں مزید مشتعل ہی کیا ہوگا۔

یہ سن کر ان کے ہاتھ جو آیا ہوگا اسی کو داد وغیرہ دی ہوگی۔ اس موقعے پر تو امریکا میں معید یوسف اور جنرل فیض ہی تھے۔ اب کوئی ان کے دل سے پوچھ لے کہ پھر کیا ہوا۔

ہمارا کپتان جب بولتا ہے، دل تو پھر ڈولتا ہے صاحب۔

تبصرے (5) بند ہیں

راشد احمد Aug 06, 2021 11:43am
بہت خوب. ہلکے پھلکے انداز میں ایسے موضوع پہ اظہارخیال دیسی انداز میں بہت دلچسپ لگا. عالمی اخبارات کے حوالہ جات سے مضمون اور زیادہ موقر ہوا.
ریاض Aug 06, 2021 01:55pm
وسی بابے کو کافی عرصہ سے پڑھ رہا ہوں. اس کی ہمارے ارد گرد کیا کھچڑی پک رہی ہے اس پہ گہری نظر ہوتی ہے. یہ کالم بھی اسی کا مظہر ہے.
ریاض Aug 06, 2021 01:57pm
اس مضمون میں وسی بابے نے اپنے مطالعے اور مشاہدے کو احسن انداز میں بیان کیا ہے. میری رائے میں بابے کو تواتر کے ساتھ اور جلدی جلدی لکھنا چاہیے اس میں زیادہ وقفہ نہ ہو تو بہتر ہے.
اختر حسین Aug 06, 2021 05:46pm
شکر کریں کہ وزیر اعظم بولتا تو ہے پچھلا تو چپراسی لگنے لائق نہیں تھا۔ پہلی مرتبہ امریکہ کی جی حضور ی چھوڑ کر اپنے قو می مفادات کے تحت بات کرنا شروع کی ہے تھوڑا وقت لگے گا لیکن انشاءاللہ بہتر نتیجہ آئے گا۔ عرب ممالک سے متعلق بھی گوبر کے دماغ والے لوگ یہی کہ رہے تھے کہ سب برباد ہو گیا لیکن آج کے دور میں جارحانہ پالیسی چلتی ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان بہترین تعلقات کی بات کرنے والے آحمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ امریکہ نے اپنے لئے کئی سال پہلے ہی بھارت کو چن لیا ہے ہمارے مفادات اب چین کے ساتھ جڑے ہیں اور وزیراعظم کا لب و لہجہ اس کا غماز ہے۔
شاہ سعود Aug 09, 2021 09:09am
بس ایک بات کہوں گا۔۔ کہ الفاظ میں طنز زیادہ دوسروں کی باتوں پر انحصار اور اعتماد زیادہ جبکہ اپنوں پر کم ہے۔۔۔میرا ماننا ہے کہ جب ہم نے اپنوں کی ماننی نہیں ہے تو پھر ان سے توقع یا پھر انہیں مشورے کیوں۔۔۔؟؟ دوسری بات یہ کہ جی ہاں جب کپتان بولتا ہے تو دل ڈولتا ہے کیونکہ الحمدللہ وہ نو مور کہتا ہے اسی پاکستان میں وہ جماعت بھی آپ ہی کے قبیلے کی ہے جو ڈو مور پر تنقید کرتے تھے اب نو مور والا آیا تو بھی مسئلہ۔۔ بھائی چاہتے کیا ہو۔۔۔؟؟جس فوج پر آپ مبہم انداز میں کیچڑ پھینکتے ہیں وہی فوج جب 2001 میں کہتی ہے راستہ نہ دیا تو پتھر کے زمانے میں دھکیل دیں گے ہمیں تب بھی ڈولتا تھا۔۔ بھاث چاہتے کیا ہو۔۔۔؟؟؟