رحیم یار خان: مندر پر حملے میں ملوث مزید 30 ملزمان گرفتار

اپ ڈیٹ 08 اگست 2021
عدالت نے ملزمان کوجوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا— فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت نے ملزمان کوجوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا— فائل فوٹو: اے ایف پی

رحیم یار خان پولیس نے بھونگ قصبے سے 60 کلو میٹر کے فاصلے پر ہندؤوں کے مندر پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث مزید 30 سے زائد مشتبہ ملزمان کو گرفتار کرلیا، جس کے بعد اس کیس میں گرفتاریوں کی مجموعی تعداد 52 تک پہنچ چکی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ضلعی پولیس افسر اسد سرفراز نے ڈان کو بتایا انہیں 150 سے زائد افراد مطلوب ہیں جو اس واقعے سے متعلق مختلف تین مقدمات میں نامزد ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ دیگر مشتبہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی جانب سے چھاپے مارے گئے۔

ڈی پی او کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی فراہم کردہ معلومات کے علاوہ پولیس کی جانب سے سوشل میڈیا شیئر کی جانے والی حملے کی ویڈیو کلپس کو بھی ملزمان کو شناخت کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے لاہور سے جاری کردہ بیان میں کہا کہ مرکزی ملزم سمیت مندر پر حملے میں ملوث 52 شر پسندوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: رحیم یار خان کے مندر پر حملے میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری کا حکم

انہوں نے کہا کہ پولیس کی ٹیمیں دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے ضلع کے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن کر رہی ہیں۔

آئی جی پولیس نے کہا کہ گرفتار ملزمان کو بہاولپور میں انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا جس کے بعد عدالت نے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

ترجمان پولیس رحیم یار خان نے بتایا کہ 36 گرفتار ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مندر کی بحالی کا کام شروع کیا جاچکا ہے، جو آئندہ چند روز میں مکمل کرلیا جائے گا جبکہ مندر کی بحالی کے تمام تر اخراجات ملزمان سے وصول کیے جائیں گے۔

آئی جی پولیس نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کو مذکورہ کیس کی پیش رفت سے آگاہ کیا جارہا ہے۔

دوسری جانب کچھ مقامی مذہبی رہنماؤں کی جانب سے مندر پر حملے کی شدید مذمت کی گئی اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے ضلعی امن کمیٹی (ڈی پی سی) کی تنظیم نو کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے رہنما علامہ نعمان لدھیانوی نے کہا کہ تمام مکاتب فکر اور عقائد کی حقیقی نمائندہ تنظیم بھونگ قصبے میں بدامنی اور تشدد کے خاتمے میں مدد کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا رحیم یار خان میں مندر پر حملے پر ازخود نوٹس

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ضلعی امن کمیٹی کے کئی ارکان نے اپنی متعلقہ جماعتوں اور فرقوں کی درست نمائندگی نہیں کی۔

ان کے مطابق اگر ڈی پی سی بروقت مداخلت کرتی تو بھونگ میں یہ واقعہ رونما نہ ہوتا۔

دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام پاکستان (جے یو پی) کے ڈویژنل صدر ریاض نوری، جو ضلعی امن کمیٹی کے رکن بھی ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ 46 اراکین پر مشتمل کمیٹی بالکل ٹھیک کام کررہی ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس اور مقامی انتظامیہ نے حادثے سے متعلق ڈی پی سی اراکین کو بروقت اعتماد میں نہیں لیا تھا، انہوں نے کہا کہ اگر کمیٹی اراکین کو آن بورڈ لیا جاتا ہے تو اس ناخوشگوار واقعے سے بچا جاسکتا تھا۔

دریں اثنا ہندو برادری کے رہنما گرو سکھ دیو جی کا کہنا تھا کہ مذکورہ واقعے کے بعد سے تشدد کے خوف سے بھونگ میں مقیم 125 میں سے 50 ہندو گھرانے نقل مکانی کر چکے ہیں اور صورتحال بہتر ہونے کے بعد انہیں واپس لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے مقامی ہندو برادری کی جانب سے حملے میں تباہ ہونے والے مندر کی بحالی اور ان کی سیکیورٹی کے لیے کیے جانے والے حکومتی اقدامات کے حوالے سے اطمینان کا اظہار کیا۔


یہ خبر 8 اگست، 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں