پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے سربراہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ

پاکستان 1992 کے بعد سے اولمپک میڈل جیتنے میں ناکام رہا ہے اور اس سال بھی ٹوکیو اولمپکس میں کوئی میڈل نہیں جیت سکا ہے۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی
پاکستان 1992 کے بعد سے اولمپک میڈل جیتنے میں ناکام رہا ہے اور اس سال بھی ٹوکیو اولمپکس میں کوئی میڈل نہیں جیت سکا ہے۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی

حکومت پاکستان کے اولمپکس ایسوسی ایشن (پی او اے) کے سربراہ کو برطرف کرتے ہوئے ملک میں کھیلوں کے مستقبل کو روشن کرنا چاہتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ مطالبہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے جمعہ کو پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں منعقدہ ایک نیوز کانفرنس میں کیا جس میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) عارف حسن سے کہا گیا کہ وہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن (پی او اے) کے صدر کے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔

پاکستان 1992 کے بعد سے اولمپک میڈل جیتنے میں ناکام رہا ہے اور ٹوکیو اولمپکس میں کوئی میڈل نہ جیتنے کے بعد 2024 تک پاکستان مزید میڈل سے محروم ہوگیا ہے۔

اولمپکس کے بارے میں وزیر اعظم کی زیر صدارت منعقد ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس روایت کو ختم کرنے کا واحد راستہ عارف حسن کا عہدہ چھوڑنا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان اسپورٹس بورڈ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، عارف حسن

شپباز گل نے وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ فہمیدہ مرزا اور پاکستان اسپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل (ر) کرنل محمد عاصف زمان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم کھیلوں میں مزید شرمندگی برداشت نہیں کر سکتے، قوم کی طرف سے میں پی او اے کے صدر سے استعفیٰ طلب کرتا ہوں'۔

شہباز گل نے کہا کہ گزشتہ 17 سالوں کے دوران عارف حسن کے دور میں پی او اے کا کوئی احتساب نہیں ہوا، حکومت اب کارروائی کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔

فہمیدہ مرزا نے شہباز گل کے مطالبے کی حمایت کی۔

انہوں نے نیوز کانفرنس کے بعد ڈان کو بتایا کہ 'ہم نے برسوں سے یہی دیکھا ہے کہ ایک شخصیت قانون اور حکومت سے بالاتر ہے اور اچھوت ہوگیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ پی او اے کے سربراہ بننے کے بعد عارف حسن نے آئین کو تبدیل کیا، وزیر اعظم کو اس کے سرپرست کے عہدے سے ہٹا دیا اور اس وجہ سے ان کی مدت کے دوران کبھی کوئی احتساب نہیں ہوا، انہوں نے خود سے منتخب ممبران کو آزاد ووٹرز کے طور پر شامل کیا تاکہ وہ اپنے عہدے پر قائم رہ سکیں۔

فہمیدہ مرزا نے کہا کہ پی او اے نے مسلسل ملک میں کھیلوں کی ترقی کی ذمہ داری سے خود کو آزاد کیا ہے۔

واضح رہے کہ ماضی میں بھی عارف حسن کو پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کی صدارت سے ہٹانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں تاہم بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کا دباؤ، جو اپنی رکن تنظیموں کے معاملات میں سیاسی یا حکومتی مداخلت کی اجازت نہیں دیتا، نے حکومت کو پیچھے ہٹتے پر مجبور کردیا تھا۔

پی او اے طویل عرصے سے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا فرض پاکستان میں اولمپکس چارٹر اور ورلڈ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کوڈ کی نگرانی کرنا ہے۔

اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے بعد انہوں نے اپنے موقف کا فیصلہ کرنے کے لیے لاہور میں ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔

یہ بھی پڑھیں: عارف حسن: کچھ نہ کرکے بھی سب کچھ حاصل کرنے والا پکا کھلاڑی

اجلاس کے بعد انہوں نے فوری طور پر ایک پریس بیان نہیں جاری کیا تاہم ڈان کو معلوم ہوا ہے کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وہ وزیر اعظم کو ایک خط لکھیں گے جس میں ان سے بریفنگ کا موقع طلب کیا جائے گا۔

پی او اے کے جنرل سیکرٹری خالد محمود نے ڈان کو بتایا کہ 'ہم آج کے پریسر کو جواب دینے کے لیے منگل کو ایک نیوز کانفرنس کریں گے، ہم 15 دن کے اندر ہنگامی جنرل کونسل کا اجلاس بھی بلا رہے ہیں'۔

پی او اے وزیر اعظم کو یہ بھی بتائے گا کہ عارف حسن 2019 میں منصفانہ عمل کے ذریعے منتخب ہوئے تھے، اس کے معاملات میں مداخلت آئی او سی کی مداخلت کا باعث بنے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران کارروائی کی دھمکی اور آئی او سی سے ممکنہ معطلی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

خیال رہے کہ پاکستان کو فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا نے معطل کر دیا ہے، عدالت کی جانب سے منتخب کردہ ایک کمیٹی نے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے ہیڈ کوارٹر کا کنٹرول فیفا کی مقرر کردہ نارملائزیشن کمیٹی سے چھین لیا تھا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اس اجلاس میں اتھلیٹکس فیڈریشن آف پاکستان کے صدر میجر (ر) جنرل اکرم ساہی بھی موجود تھے جنہوں نے پی او اے کی صدارت کے لیے دو مرتبہ مقابلہ کیا اور ناکام رہے تھے، اس کے علاوہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکریٹری آصف باجوہ اور پی ایف ایف کے سابق جنرل سیکریٹری کرنل (ر) مجاہد ترین بھی شریک تھے۔

اجلاس میں اسکواش کے عظیم کھلاڑی جانشیر خان کو بھی مدعو کیا گیا تھا تاہم وہ شرکت نہیں کر سکے تھے۔

اولمپکس میں حصہ لینے والے 10 کھلاڑیوں میں صرف جوونائل تھرو کے ارشد ندیم اور ویٹ لفٹر طلحہ طالب میڈل جیتنے کے قریب آئے۔

مزید پڑھیں: ٹوکیو اولمپکس: اپنے کھلاڑیوں کی کارکردگی پر تنقید درست کیوں نہیں؟

دونوں اپنے اپنے شعبوں میں پانچویں نمبر پر رہے۔

فہمیدہ مرزا نے کہا کہ حکومت ملک میں کھیلوں کی قیادت کو بہتر بنانا اور شفافیت لانا چاہتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم قومی کھیلوں کی پالیسی پر عمل درآمد پر زور دے رہے ہیں تاہم عارف حسن ہی اس کی مخالفت کر رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ فیڈریشنز جوابدہ ہوں لیکن وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے، ہم کھیلوں کو کیسے زندہ کر سکتے ہیں جب چیزیں اسی طرح رہیں گی'۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی او اے نیشنل اینٹی ڈوپنگ آرگنائزیشن (این اے ڈی او) بنانے میں بھی رکاوٹیں ڈال رہا ہے، اے ایف پی کو فی الحال پی او اے نے معطل کر دیا ہے کیونکہ تین کھلاڑیوں نے 2019 کے جنوبی ایشین گیمز کے دوران ممنوعہ چیزوں کا مثبت تجریبہ کیا تھا۔

فہمیدہ مرزا نے یہ بھی کہا کہ پی او اے اپنے حامیوں کو اولمپکس میں بطور کوچ بھیج کر ان کی خدمت کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بیڈمنٹن فیڈریشن کی سیکریٹری ٹوکیو میں مہور شہزاد کے کوچ کے طور پر موجود تھیں جبکہ پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کے صدر نے طلحہ کے کوچ کے طور پر سفر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اے ایف پی نجمہ کو نہیں بھیجنا چاہتی تھی اور اس نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ حصہ لینے کے لیے ٹھیک نہیں ہیں تاہم اسے اپنے کوچ کی خدمت کے لیے بھیجا گیا تھا'۔

کھیلوں کے دوران پی او اے نے پاکستان کی ناقص کارکردگی کا الزام پی ایس بی پر لگایا کہ اس نے 44 کروڑ ڈالر کے غیر استعمال شدہ فنڈز وزارت خزانہ کو واپس کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان فنڈز کو کھلاڑیوں کی تیاری میں استعمال کیا جا سکتا تھا جو کھیلوں میں حصہ لینے والے تھے۔

انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ آئی پی سی نے اولمپکس کی تیاریوں کے لیے فنڈز حاصل کرنے کے لیے وزیر اعظم کو کوئی سمری نہیں بھیجی۔

تبصرے (1) بند ہیں

سید رضی الدین احمد Aug 14, 2021 09:39pm
ہم کیسے لوگ ہیں ۔ عارف حسن کو ہٹاکر بھی دس سال تک کچھ نہیں ہوسکے گا۔ اولمپک ایسوسی ایشن کے نام میں اولمپک آنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا فرض ملک میں اولمپک کیلئے میڈل لانا ہے۔ یہ تو محض ایک رابطہ کمیٹی ہے پاکستان اسپورٹس اور انٹرنیشل اولمپک کے درمیان۔ ملک میں اسپورٹس پہلے تو یہ طے کرلیں کس کی ذمہ داری ہے ؟ صوبہ یا وفاق یا ضلعی حکومت !! ماضی میں اسکولوں سے بچے اوپر کسی بھی کھیل میں اوپر آتے تھے۔ اب تعلیم بندروں کے ہاتھ میں استرا بن چکی بلکہ تعلیم اور سیاست دونوں سے بہتر کھیل کوئی نہیں۔ جسمیں بھی ہماری کارکردگی بدترین ہے۔ پاکستان اسپورٹس بورڈ ہو یا پاکستان ایتھلیٹکس فیڈریشن اور یا ہاکی فیڈریشن۔۔۔۔یہ سب براہ راست اپنے اپنے حصہ کے ذمہ دار ہیں۔۔۔۔جن میں سیاست داں سر فہرست ہیں۔ کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، تیراکی، اسنوکر، باکسنگ، سائیکلنگ، کشتی رانی، پہلوانی ۔۔۔۔کیا ہمارے پاس کسی بھی کھیل میں معیاری ٹیمیں موجود ہیں۔ جن میں ہم ماضی میں میڈل جیتتے رہے ہوں۔ کرکٹ کا جو بیڑا غرق حضرت مصباح نے وقار یونس کے ساتھ کیا وہ ایک الگ مذاق ہے۔