ملکی سیکیورٹی اور مسلح افواج کی محازوں پر واپسی اولین ترجیح ہے، اشرف غنی

14 اگست 2021
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا کہ وہ لڑائی ختم کرنا چاہتے ہیں— فائل فوٹو: اے پی
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا کہ وہ لڑائی ختم کرنا چاہتے ہیں— فائل فوٹو: اے پی

افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ ملک کی سیکیورٹی اور مسلح افواج کو دوبارہ متحرک کرتے ہوئے محازوں پر واپسی 'اولین ترجیح' ہے اور اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق طالبان نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران انتہائی تیزی سے پیش قدمی کی ہے اور وہ افغان سیکیورٹی فورسز کو تمام محازوں پر مات دیتے ہوئے دارالحکومت کابل کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا کی طالبان سے کابل میں سفارتخانے پر حملہ نہ کرنے کی اپیل

طالبان نے کابل کے قریب ایک اہم شہر پر قبضہ کر لیا جبکہ وہ اب تک مجموعی طور پر 19 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر چکے ہیں۔

ادھر طالبان کی پیشرفت کو دیکھتے ہوئے سفارت خانے کے حکام اور دیگر شہریوں کو ملک نکالنے میں مدد کرنے کے لیے امریکی فوج کے خصوصی دستوں کو بھیجا گیا ہے۔

اشرف غنی نے ٹیلی ویژن پر تقریر میں کہا کہ موجودہ صورتحال میں ہماری سیکیورٹی اور دفاعی افواج کی بحالی ہماری اولین ترجیح ہے اور اس سلسلے میں سنجیدہ نوعیت کے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

تاہم اپنی تقریر میں انہوں نے اپنے استعفے کا کسی بھی قسم کا کوئی عندیا نہیں دیا اور نہ ہی موجودہ صورتحال کی ذمے داری لی البتہ ان کا کہنا تھا کہ جنگ کے خاتمے کے لیے مشاورت جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ نے افغانستان سے امریکی انخلا کو غلطی قرار دے دیا

انہوں نے کہا کہ ایک تاریخی مشن کے طور پر میں لوگوں پر مسلط کردہ جنگ کو مزید ہلاکتوں کا سبب نہیں بننے دوں گا۔

ملک کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہر طالبان کے قبضے میں جانے کے بعد دارالحکومت کابل حکومتی افواج کے لیے آخری محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے جہاں مقامی افواج نے اب تک کسی بھی مقام پر طالبان کے خلاف زیادہ مزاحمت نہیں ۔

طالبان کی پیش قدمی

طالبان اب کابل سے صرف 50 کلومیٹر (30 میل) کے فاصلے پر ڈیرے ڈال چکے ہیں اور دارالحکومت پر حملے سے قبل امریکا اور دیگر ممالک اپنے شہریوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔

مزار شریف کے ارد گرد بھی شدید لڑائی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جہاں سابق نائب صدر عبدالرشید دوستم نے اپنی طالبان مخالف ملیشیا جمع کر رکھی ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان نے ‘شیر ہرات’ کو حراست میں لے لیا، مزید تین صوبائی دارالحکومتوں پر بھی قبضہ

اب تک صرف جلال آباد، خوست اور گردیز وہ اہم شہر ہیں جس پر طالبان نے اب تک قبضہ نہیں کیا، ان تینوں مقامات پر پشتون آبادی ہے اور یہاں سے طالبان کے خلاف کسی مزاحمت کی امید نہیں۔

کابل میں امریکی سفارت خانے کے عملے کو حکم دیا گیا کہ وہ حساس مواد کو جلانا شروع کردیں جبکہ برطانیہ، جرمنی، ڈنمارک اور اسپین سمیت یورپی ممالک اپنے متعلقہ سفارت خانوں سے اہلکاروں کو واپس بلانے کا اعلان کر چکے ہیں۔

کابل کے باشندوں کے ساتھ ساتھ دارالحکومت میں پناہ لینے والے ہزاروں افراد بھی خوف اور عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہیں۔

اپنی دو بہنوں کے ساتھ بھاگ کر کابل پہنچنے والی 35سالہ مژدہ نے کہا کہ وہ مستقبل کے لیے خوفزدہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کی کابل کی طرف پیش قدمی، 'ایک نئے انسانی بحران کا جنم'

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا میں دن رات رو رہی ہوں، میں نے ماضی میں شادی کی تجاویز ٹھکرا دی تھیں، اگر طالبان نے آ کر شادی کے لیے زبردستی کی تو میں خودکشی کر لوں گی۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ وہ طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں خواتین کے ساتھ خراب سلوک روا رکھے جانے کی اطلاعات سے شدید پریشان ہیں۔

طالبان کی پیش قدمی کی رفتار نے افغانوں اور اتحادی افواج کو حیران کردیا ہے جو 20سالہ جنگ کے بعد 11ستمبر تک ملک سے انلا کا عمل مکمل کر لیں گے۔

صدر جو بائیڈن کی جانب سے انخلا کے حتمی اعلان سے قبل افغان فوجیوں ، یونٹوں اور یہاں تک کہ پوری ڈویژنوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور طالبان کو تیز رفتار پیش قدمی کے لیے مزید گاڑیاں اور ملٹری آلات و ہارڈ ویئر دے رہے ہیں۔

انخلا کی کوششوں کے باوجود بائیڈن انتظامیہ اس بات پر زور دے رہی ہے کہ طالبان کا مکمل قبضہ ناگزیر نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: چمن بارڈر پر افغان مظاہرین کا پاکستانی سیکیورٹی فورسز سے تصادم

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے جمعہ کو کہا تھا کہ کابل کو اس وقت خطرہ لاحق نہیں ہے۔

حالیہ دنوں میں طالبان کی کارروائی میں تیزی آئی ہے، شمال میں ہرات پر قبضے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی انہوں نے قندھار پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔

صوبہ لوگر کا دارالحکومت پل عالم بھی جمعہ کو طالبان کے قبضے میں چلا گیا جس کے بعد اب وہ کابل سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔

ادھر کابل میں ہوائی اڈے پر ہر تھوڑی دیر پر امریکی ہیلی کاپٹر پرواز کرتے نظر آ رہے ہیں تاکہ سفارت خانے کے ملازمین کے ساتھ ساتھ امریکی فوج کے لیے کام کرنے والے افغان شہریوں کا بھی باحفاظت انخلا یقینی بنایا جا سکے۔

پینٹاگون کے ترجمان کربی نے کہا کہ انخلا کی نگرانی کرنے والے بیشتر فوجی اتوار تک موجود ہوں گے اور افغانستان سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں منتقل ہو سکیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: چند روز کے اندر طالبان افغانستان کے 2 تہائی سے زائد حصے پر قابض

ہفتہ کو اپنی تقریر میں اشرف غنی نے کہا کہ وہ لڑائی ختم کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے حکومت کے اندر عمائدین، سیاسی رہنماؤں، عوام کے نمائندوں اور بین الاقوامی شراکت داروں سے سیاسی حل کے حصول کے لیے وسیع مشاورت شروع کر دی ہے جس میں افغانستان کے عوام کے لیے امن اور استحکام کا تصور پیش کیا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں