قومی سلامتی کمیٹی کا افغانستان میں سیاسی حل، عدم مداخلت کے اصول پر عمل کا اعادہ

اپ ڈیٹ 17 اگست 2021
وزیراعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا —فوٹو: پی آئی ڈی
وزیراعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا —فوٹو: پی آئی ڈی

افغانستان کی صورت حال پر منعقدہ قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے ہنگامی اجلاس میں افغانستان میں سیاسی حل اور عدم مداخلت کے اصول پر قائم رہنے کا اعادہ کیا گیا۔

وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جہاں کابینہ کے سینئر ارکان اور مسلح افواج کے سربراہان نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: ’افغانستان میں موجود پاکستانیوں، غیر ملکیوں کو قونصلر خدمات فراہم کی جارہی ہیں‘

بیان میں کہا گیا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ‘افغانستان میں عدم مداخلت کے اصول کو ہر صورت برقرار رکھا جائے گا’۔

وزیراعظم ہاؤس کے بیان میں کہا گیا کہ اجلاس کو افغانستان کی صورت حال اور اس کے پاکستان اور جنوبی ایشیائی خطے پر ممکنہ اثرات سے آگاہ کر دیا گیا۔

اجلاس کے شرکا نے اعادہ کیا کہ پاکستان ‘ایک واضح سیاسی حل نکالنے میں سہولت کے لیے عالمی برادری اور افغان اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ کام جاری رکھے گا اور یہ واحد حل ہے جس میں افغانستان کے تمام قبائلی گروپس کی نمائندگی ہو’۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کہا گیا کہ طالبان کے کابل میں قبضے کے دوران اب تک کشیدگی سے گریز کیا گیا اور افغانستان کے تمام فریقین پر زور دیا گیا کہ قانون کی بالادستی کا احترام، افغانستان کے تمام شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کریں اور افغان سرزمین کو کسی دہشت گرد تنظیم یا گروپ کو کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے پر زور دیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ اجلاس میں زور دیا گیا کہ عالمی برادری گزشتہ 4 دہائیوں کے دوران پاکستان کی جانب سے دی گئیں قربانیوں کا اعتراف کرے، حالانکہ پاکستان خود افغان مسئلے کا متاثرہ رہا ہے اور ہم خطےمیں امن و استحکام چاہتے ہیں۔

'بائیڈن انتظامیہ کی فیصلے کی توثیق منطقی نتیجہ'

اجلاس میں کہا گیا کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنے کا بہتر وقت وہ تھا جب امریکی اور نیٹو فوجیوں کا اثر زیادہ سے زیادہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ طویل عرصے تک بیرونی فورسز کی موجودگی سے اب کوئی مختلف نتیجہ نہیں نکلے گا۔

یہ بھی پڑھیں: افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ گئے، طالبان دارالحکومت کابل میں داخل

ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے امریکی صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے لیے کیے گئے فیصلوں کی توثیق اس مسئلے کا منطقی انجام تھا۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کہا گیا کہ ‘اب عالمی برادری کے لیے وقت ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن، سلامتی اور ترقی کے لیے مؤثر سیاسی حل نکالنے کو یقنی بنانے کے لیے مل کر کام کیا جائے’۔

وزیراعظم عمران خان نے کابل میں پاکستانی سفارت خانے کی کوششوں کو سراہا اور پاکستان کے شہریوں، سفارت کاروں، صحافیوں اور افغانستان میں کام کرنے ولاے عالمی اداروں کے عہدیداروں کی واپسی کا کام تیز کرنے کا حکم دیا۔

صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں، دفترخارجہ

گزشتہ روز دفترخارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں وقوع پذیر حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور پاکستان سفارتی برادری، میڈیا اور دیگر افراد کے ویزا یا ملک آمد کے لیے سہولت فراہم کررہا ہے۔

ترجمان دفترخارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے ٹوئٹ کی سیریز میں کہا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ تمام افغان فریقین داخلی سیاسی بحران حل کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے۔

انہوں نے کہا تھا کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانہ پاکستانیوں کو ضروری معاونت اور مدد فراہم کررہا ہے جبکہ افغان شہریوں، سفارتکاروں اور عالمی برادری کو قونصلر خدمات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانہ، پی آئی اے پروازوں کے لیے کوآرڈینیشن بھی کررہا ہے۔

اپوزیشن کا بریفنگ کا مطالبہ

ملک کی اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) نے گزشتہ روز حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ پارلیمان میں افغانستان کی صورت حال پر بریفنگ دی جائے جہاں پالیسی بیان دیا جائے اور جنگ زددہ ملک میں طالبان کے قبضے کے بعد پڑنے والے ممکنہ اثرات سے نمٹنے کے لیے قومی اتفاق رائے پیدا کرے۔

پی پی پی نے اپنی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی (سی ای سی) کا غیر معمولی اجلاس بلاول ہاؤس کراچی میں طلب کیا تھا تاکہ افغانستان کی صورت حال پر تبادلہ خیال کرکے اس حوالے سے پارٹی کا نکتہ نظر وضع کیا جائے۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے لوگوں کے انخلا میں مدد کررہے ہیں، وزیر خارجہ

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ڈان کو بتایا تھا کہ افغانستان میں تبدیل ہونے والے حالات پر جماعت کے اندربات چل رہی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ حکومت افغانستان کی صورت حال پر اپنی پالیسی کے حوالے سے اپوزیشن اور پارلیمنٹیرینز کو بریف کرے اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ بحث کا مرکزی نکتہ قومی اتفاق رائے ہونا چاہیے اور بحث اسی وقت فائدہ مند ہوگی جب حکومت اپنا پالیسی بیان جاری کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں