امید ہے امریکا اپنی غلطی سے سبق سیکھ کر اس کا ازالہ کرے گا، چینی نمائندہ خصوصی

اپ ڈیٹ 23 اگست 2021
چین کے نمائندہ خصوصی نے کہا کہ طالبان کو اپنے لوگوں کی خدمت کرنی ہوگی—فوٹو:سلیم صافی ٹوئٹر
چین کے نمائندہ خصوصی نے کہا کہ طالبان کو اپنے لوگوں کی خدمت کرنی ہوگی—فوٹو:سلیم صافی ٹوئٹر

چین کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان یاؤیاؤ یانگ نے افغانستان کے حالات کی ذمہ داری امریکا پر ڈالتے ہوئے اُمید ظاہر کی ہے کہ امریکا آئندہ ایسی غلطی نہیں کرے گا اور اس کا ازالہ بھی کرے گا۔

نجی ٹی وی ‘جیو نیوز’ کے پروگرام ‘جرگہ’ میں بات کرتے ہوئے یاؤیاؤ یانگ نے کہا کہ ‘چین اور افغانستان کے لوگوں کی نظر میں بھی تمام موسموں پر محیط تزویراتی اور باہمی تعاون کے رشتے کی حامل دوستی کی بڑی اہمیت ہے’۔

یہ بھی پڑھیں: اُمید ہے طالبان مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک کے خلاف کارروائی کریں گے، چین

افغانستان کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم اس مسئلے کے حل کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں، جو چین اور پاکستان کی دوستی کا ایک اور ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 20 سال کی جنگ کے الم ناک واقعات اور اب آنے والی تبدیلی افغانستان کے عوام کی مرضی کے مطابق ہو، طالبان کے کابل میں داخلے کے بعد صورت حال تبدیل ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے عوام کو یہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ پرامن طریقے سے مسئلے کا حل نکالیں اور اپنے ملک کی بحالی میں حصہ لیں۔

چین کے نمائندہ خصوصی نے کہا کہ میں اپنے پاکستانی ہم منصب سے رابطے میں ہوں اور خطے کے دیگر ممالک سے بھی اس حوالے سے رابطے موجود ہیں۔

طالبان حکومت تسلیم کرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ ‘افغانستان میں بحرانی حالات کی ذمہ داری امریکی اور نیٹو افواج کا غیرذمہ دارانہ انخلا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سمیت کئی ممالک نے امریکا سے کہا کہ اس افراتفری کے حالات میں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کیونکہ ان کی افواج 20 سال سے وہاں موجود تھیں اور کسی مصالحتی حل کے بغیر وہاں سے نکلنا غیرذمہ داری ہے۔

یاؤیاؤ یانگ نے کہا کہ ‘ہمیں امید ہے کہ امریکا اس سے سبق سیکھے اور غلطیوں کا ازالہ کرے اور مستقبل میں بھی امریکا بیرونی ملک کی حیثیت سے موجودہ حالات پر کردار ادا کرسکتا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘افغانستان میں امن کے حوالے سے ہمیں امید ہے کہ امریکا اپنی غلطیاں نہیں دہرائے گا، ہم نے کئی مرتبہ انہیں بتایا کہ کسی تنازع میں مداخلت یا فوجی کارروائی سے مسئلے کا حل نہیں نکلتا’۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں 'سیاسی تصفیے' کیلئے امریکا کا پاکستان، چین پر زور

چین کے نمائندے نے کہا کہ بین الاقوامی تعلقات کے اس نازک موڑ پر گھمبیر مسائل ہیں اور ان کے حل کے لیے طاقت کی سیاست یا دباؤ کا استعمال کرنا مناسب رویہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان سے ہمارے وزیر خارجہ نے چین میں طالبان وفد سے ملاقات کی اور ٹرائیکا پلس ون میں جہاں چین، روس، امریکا اور پاکستان نے طالبان اور دیگر سیاسی فورسز سے رابطے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں طالبان کی طرف کچھ پیش رفت نظرآتی ہے اور وہ کہتے ہیں عسکری حل کے بجائے سیاسی حل نکالا جائے گا اور مخلوط حکومت بنائیں گے اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ دوسرے فریقین کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف لڑیں گے جو نہ صرف افغانستان بلکہ پڑوسی ممالک کے لیے بہت ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں چین میں مشرقی ترکستان اسلامی موومنٹ کے حوالے سے بڑی تشویش ہے، اس سے پاکستان اور دیگر ممالک کو بھی خاص تشویش ہے، دہشت گردی کے خلاف اپنی پوزیشن واضح کرنا ضروری ہے اور انہوں کیا ہے۔

افغانستان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مستقبل کی حکومت کو عوام کی حمایت ہونی چاہیے اور عوام کی خدمت کرنا چاہیے، جو مخلوط حکومت ہونی چاہیے اور یہ حکومت داخلی طور پر پرامن ترقی اور پڑوسیوں کے ساتھ پرامن تعلقات کے لیے کام کرے اور ان کے لیے خطرہ نہ بنے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان اب افغانستان کی اہم سیاسی اور عسکری قوت ہیں اور ان کے پاس ترقی اور تعمیری کردار ادا کرنے کا تاریخی موقع ہے، جس کے لیے وہ دوسرے فریق کو ساتھ ملا کر عوام میں اتحاد پیدا کریں، عالمی برادری کو بھی طالبان کی تمام مثبت پہلوؤں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کے تسلیم کرنے سے پہلے حکومت کو پہلے اپنے لوگوں کے لیے قابل قبول ہونا چاہیے اور ان کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں