طالبان نے پنج شیر کا محاصرہ کر لیا، مزاحمتی فورسز سے شدید لڑائی جاری

اپ ڈیٹ 24 اگست 2021
پنج شیر کی وادی میں افغان مزاحمتی فورسز طالبان کے خلاف مزاحمت کررہی ہیں— فوٹو: اے ایف پی
پنج شیر کی وادی میں افغان مزاحمتی فورسز طالبان کے خلاف مزاحمت کررہی ہیں— فوٹو: اے ایف پی

پنج شیر کے پہاڑی علاقے میں طالبان اور قومی مزاحمتی اتحاد کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے اور طالبان نے وادی کا محاصرہ کر لیا ہے جس کے بعد وہاں خوراک اور سازوسامان کی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 9 دن قبل طالبان کے کابل پر سمیت ملک بھر میں کنٹرول کے بعد قومی مزاحمتی اتحاد نے طالبان کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت کی ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا باصلاحیت افغانوں کا انخلا بند کرے، طالبان

طالبان کے خلاف کھڑے ہونے والے اس قومی مزاحمتی اتحاد میں ملیشیا کے جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ سابق حکومتی فوجی بھی شامل ہیں اور انہوں نے طالبان کے ممکنہ حملوں کے پیش نظر مشین گنوں کے جال، مارٹر اور ریت کی بوریوں سے حفاظتی چوکیاں بنا لی ہیں۔

پنج شیر کی برفانی چوکیوں پر رائفلز، دستی بم اور واکی ٹاکی سے لیس ایک جنگجو نے کہا کہ ہم طالبان کو خاک میں ملا دیں گے۔

اس میں وادی میں اکثر تاجک باشندے موجود ہیں جہاں پہاڑوں سے گھرے اس علاقے میں قدرتی طور پر مقامی مزاحمتی فورسز کا دفاع انتہائی مضبوط ہو جاتا ہے۔

گزشتہ ہفتے اس مزاحمتی فورس کے سربراہ اور سابق کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر طالبان حملہ کرتے ہیں تو انہیں ہماری بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سی آئی اے سربراہ کی ملا عبدالغنی برادر سے کابل میں خفیہ ملاقات

اس سے قبل اس مزاحمتی فورس کے ترجمان نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے تھا کہ ہم طالبان کی کسی بھی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے لیے تیار ہیں لیکن ایک جامع حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات کے خواہاں ہیں۔

دونوں فریقین نے کہا ہے کہ وہ بات چیت سے معاملے کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن ابھی تک اس معاملے پر اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔

وادی پنج شیر اتنی اہم کیوں ہے؟

پنج شیر کابل کے شمال میں 80 کلومیٹر دور ہندوکش کے پہاڑی سلسلے میں واقع ایک تنگ وادی ہے۔

اس وادی میں داخلے کے راستے انتہائی محدود ہیں اور جغرافیائی طور پر فوجی مہم میں دفاعی لحاظ سے بہت فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ حریف فورسز کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

یہ اس لحاظ سے بھی افغانستان میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ 100سل سے زائد عرصے سے یہ علاقہ کوئی بھی حملہ آور فتح نہیں کر سکا اور یہ مزاحمت کی علامت بنا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان کی درخواست پر افغانستان کیلئے ایرانی ایندھن کی برآمد بحال

اس مزاحمت کی اصل جڑ یہاں کی تاجک آبادی ہے جس کو 1980 اور 90 کی دہائی میں افغانستان کی سیاسی اور سیکیورٹی امور میں انتہائی اہمیت حاصل تھی۔

اس ساکھ کو کس نے مضبوط؟

پنجشیر میں سب سے زیادہ قابل احترام شخصیت احمد شاہ مسعود ہیں جو ایک گوریلا کمانڈر اور پنج شیر کے شیر کے نام سے مشہور ہیں، انہوں نے 1980 کی دہائی میں سوویت فوج کے خلاف جنگ میں نام پیدا کیا تھا۔

سوویت یونین نے ہزاروں فوجیوں، ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں کے ساتھ متعدد مہمات کا آغاز کیا لیکن وہ احمد شاہ مسعود کو شکست دینے میں ناکام رہے اور جب 90 کی دہائی میں طالبان نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو وہ ان کے خلاف بھی مزاحمت کی علامت بنے رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان نے وزرائے خزانہ، داخلہ، انٹیلی جنس چیف کا تقرر کردیا

طالبان اس وقت پنج شیر پر کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے اور احمد شاہ مسعود کی افواج نے انہیں اس وقت میدان جنگ میں سب سے بڑا نقصان پہنچایا تھا۔

2001 میں نائن الیون سے دو دن پہلے القاعدہ کے دہشت گردوں نے احمد شاہ مسعود کو قتل کر دیا تھا۔

دستاویزی فلم کے بہانے ملاقات کرنے کے لیے آنے والوں نے اپنے کیمرے اور بیٹری پاؤچ میں دھماکہ خیز مواد چھپایا ہوا تھا۔

اب مزاحمت کون کررہا ہے؟

آج کے طالبان مخالف جنگجوؤں میں مقامی ملیشیا کے ارکان کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی فورسز کے سابق ارکان بھی شامل ہیں جو افغانستان کے باقی حصوں پر قبضے کے ساتھ ہی وادی میں آئے تھے۔

وہ اپنے سازوسامان، گاڑیاں اور ہتھیار ساتھ لائے تاکہ قومی مزاحمتی محاذ کے اسلحہ اور گولہ بارود کے ذخیرے میں اضافہ کیا جا سکے۔

مزید پڑھیں: اب افغانستان میں کوئی خونریزی نہیں ہوگی، طالبان رہنما

اس مزاحمتی فورس کے رہنما احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود ہیں۔ جبکہ افغانستان کے سابق نائب صدر امر اللہ صالح بھی وادی پنجشیر میں ہیں اور ان کی احمد مسعود کے ساتھ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں۔

طالبان کا رد عمل کیا ہے؟

طالبان نے سینکڑوں جنگجوؤں کو پنجشیر کے ارد گرد کے علاقوں میں بھیجا ہے تاکہ وادی میں موجود افراد کا محاصرہ کر کے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جا سکے۔

طالبان نے کہا ہے کہ وہ پنجشیر کے ارد گرد کم از کم تین علاقوں پر قابض ہیں اور سابق نائب صدر امراللہ صالح نے ٹوئٹ کی ہے کہ انسانی بحران پیدا ہو رہا ہے کیونکہ خوراک اور ایندھن کی فراہمی منقطع ہو گئی ہے۔

اگرچہ این آر ایف نے کسی بھی حملے کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے تاہم یہ بات غیرواضح ہے کہ ان کے پاس طویل محاصرہ برداشت کرنے کے لیے خوراک، سامان اور گولہ بارود ہے یا نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں