ماسکو: روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ نے اتفاق کیا ہے کہ وہ طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان سے ابھرنے والے ’خطرات‘ سے نمٹنے کے لیے کوششیں تیز کریں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسی تناظر میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو طالبان کے ساتھ بات چیت کو برقرار رکھنا چاہیے، اگر وہ نیٹو کی تعیناتی کی دو دہائیوں کے دوران ملک میں حاصل ہونے والی ’بہتری‘ کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان، امریکا، روس، چین کا افغانستان میں جنگ بندی کا مطالبہ

روس کے مطابق ایک ٹیلی فون کال کے دوران روسی اور چینی رہنماؤں نے ’افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خطرات سے نمٹنے کے لیے کوششیں تیز کرنے پر اتفاق کیا‘۔

انہوں نے افغانستان میں ’امن کے قیام کی اہمیت‘ اور ’ملحقہ علاقوں میں عدم استحکام کے پھیلاؤ کو روکنے‘ کے بارے میں بھی بات کی۔

روسی اور چینی صدر نے دوطرفہ روابط کو تیز کرنے اور شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی ’ممکنہ صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے‘ پر اتفاق کیا جو کہ آئندہ ماہ تاجکستان میں ایک سربراہی اجلاس طلب کرنے والی ہے۔

وسطی ایشیا میں کئی سابق سوویت ریاستوں کے ساتھ افغانستان اور چین کی سرحد لگتی ہے۔

اگرچہ ماسکو، کابل میں نئی قیادت کے بارے میں محتاط طور پر پرامید ہے لیکن روسی صدر نے افغان عسکریت پسندوں کو پڑوسی ممالک میں پناہ گزینوں کے طور پر داخل ہونے سے خبردار کیا ہے۔

ولادی میر پیوٹن نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں بیرونی طاقتوں کی شمولیت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ماسکو نے سوویت یونین کے ملک پر کئی دہائیوں سے حملے سے ’سبق‘ سیکھا ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان کی صورتحال پر امریکا کا پاکستان، بھارت، چین اور روس سے رابطہ

دوسری جانب چین نے کہا کہ وہ افغانستان کے ساتھ ’دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات‘ کو گہرا کرنے کے لیے تیار ہے۔

چینی ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے جی سیون کی طح 31 اگست کے بعد لوگوں کو افغانستان سے نکلنے کی اجازت دینے کا مطالبہ نہیں کیا، افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد مایوس ہجوم اپنی حفاظت کے لیے خوفزدہ ہے۔

چین اور روس جی 7 کا حصہ نہیں ہیں، امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ امریکا کو 31 اگست تک انخلا ختم کرنے کی توقع ہے۔

تاہم جی 7 رہنماؤں نے منگل کو اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ طالبان پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ 31 اگست کے بعد بھی وہاں سے جانے کے خواہشمند افغان باشندوں کو محفوظ راستہ فراہم کریں۔

چین کے پیپلز ڈیلی کی رپورٹ کے مطابق روسی صدر کے ساتھ ٹیلی فونک کال میں چین کے صدر نے عدم مداخلت اور افغانستان کی خود مختاری اور آزادی کا احترام کرنے کے چین کے مؤقف کا اعادہ کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے شی جن پنگ کو بتایا کہ وہ افغانستان میں چین کے مؤقف اور مفادات کا اشتراک چاہتے ہیں اور چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں، تاکہ غیر ملکی افواج کو افغانستان میں مداخلت اور تباہی سے بچایا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کا ماسکو کی میزبانی میں منعقد ’امن مذاکرات‘ میں شرکت کا فیصلہ

چینی صدر نے افغانستان کی تمام جماعتوں اور دھڑوں پر زور دیا کہ وہ ایک واضح اور جامع سیاسی فریم ورک بنائیں اور اعتدال پسند، مستحکم پالیسیاں نافذ کریں اور تمام دہشت گرد گروہوں سے تعلقات ختم کریں۔

ولادی میر پیوٹن نے کہا کہ روس، چین کے ساتھ مل کر دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف کام کرنا اور افغانستان کے سیکیورٹی خطرات کو ’پھیلنے‘ سے روکنا چاہتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں