پاکستان، امریکا، روس، چین کا افغانستان میں جنگ بندی کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 19 مارچ 2021
بیان میں متحارب فریقین سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ تشدد کی روک تھام کریں---فوٹو: رائٹرز
بیان میں متحارب فریقین سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ تشدد کی روک تھام کریں---فوٹو: رائٹرز

روس، چین اور پاکستان کے ساتھ امریکا نے بھی افغانستان کے متحارب فریقین سے فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کردیا۔

ڈان کی **رپورٹ ** کے مطابق واشنگٹن نے روس میں منعقدہ اجلاس میں علاقائی امن مذاکرات میں شرکت کے لیے پہلی مرتبہ اپنے ایک سینئر عہدیدار کو بھیجا۔

مزید پڑھیں: طالبان کا ماسکو کی میزبانی میں منعقد ’امن مذاکرات‘ میں شرکت کا فیصلہ

ماسکو کے مذاکرات کا مقصد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات میں مزید مؤثر بنانا ہے۔

دوحہ میں تعطل کا شکار مذاکرات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ افغان حکومت نے الزام عائد کیا کہ طالبان نے تشدد کو روکنے کے لیے عدم سنجیدگی پر مبنی رویہ اختیار کیا۔

جمعرات کی بات چیت کے بعد مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ ’اس موڑ پر ہمارے چاروں ممالک نے فریقین سے بات چیت کرنے اور ایک امن معاہدے پر دستخط کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو افغانستان میں چار دہائیوں سے زیادہ جنگ کا خاتمہ کرے گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کا جائزہ لیں گے، جوبائیڈن انتظامیہ

بیان میں متحارب فریقین سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ تشدد کی روک تھام کریں اور طالبان موسم بہار اور موسم گرما میں پر تشدد کارروائیاں نہ کرنے کا اعلان کریں۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ ایک مرتبہ جب امن سمجھوتہ ہو گیا ہے تو چاروں ممالک افغانستان کے لیے سیاسی اور معاشی مدد کو متحرک کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

ماسکو کے مذاکرات کے بعد افغانستان کی اعلیٰ کونسل برائے قومی مفاہمت کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ نے ٹوئٹر پر کہا کہ ریاستی مذاکراتی ٹیم طالبان کے ساتھ کسی بھی موضوع پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے پر امن ماحول میں مذاکرات کے اگلے دور شروع کرنے کے لیے ٹارگٹ کلنگ اور جامع جنگ بندی کے خاتمے کا مطالبہ کیا‘۔

مزید پڑھیں: امریکا فوجی انخلا میں ناکام ہوا تو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا، طالبان

ماسکو نے 2017 سے ہی افغان اور علاقائی فریقین کے مابین مذاکرات کی میزبانی کی ہے۔

اس سے قبل واشنگٹن نے نام نہاد ’ماسکو فارمیٹ‘ سے دوری اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور طالبان کے ساتھ اپنے براہ راست مذاکرات پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔

افغان صدر اشرف غنی عبوری حکومت کی مخالفت کرتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں