اسرائیلی وزیراعظم، جو بائیڈن پر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ بحال نہ کرنے پر زور ڈالیں گے

27 اگست 2021
اسرائیلی رہنما نے بدھ کو سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن اور سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں — فوٹو : اے پی
اسرائیلی رہنما نے بدھ کو سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن اور سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں — فوٹو : اے پی

امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینٹ کی پہلی ملاقات جمعہ کو ہونے جارہی ہے، جس میں اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے جو بائیڈن پر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ بحال کرنے کا ارادرہ ترک کرنے لیے زور ڈالے جانے کا امکان ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن پہنچنے سے قبل نفتالی بینیٹ نے واضح کیا کہ وائٹ ہاؤس کے دورے میں ان کی اولین ترجیح جو بائیڈن کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی طرف دوبارہ نہ لوٹیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایران پہلے ہی یورینیم کی افزودگی کرچکا ہے اور پابندیوں میں نرمی سے اسے خطے میں اسرائیل کے دشمنوں کی حمایت کے مزید وسائل دستیاب ہوجائیں گے۔

دونوں رہنماؤں کی ملاقات جمعرات کو ہونے تھی لیکن کابل ایئرپورٹ کے قریب دھماکے کے بعد جو بائیڈن کی قومی سلامتی کے مشیروں سے ہونے والی ملاقات کے باعث اسے آگے بڑھا دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر دوبارہ مظاہرے شروع کردیے

اسرائیلی رہنما نے بدھ کو سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن اور سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں جن مین ایران اور دیگر معاملات کے حوالے سے بات چیت ہوئی، بطور وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کا یہ امریکا کا پہلا دورہ ہے۔

نفتالی بینیٹ نے دورے سے قبل اپنی کابینہ کو بتایا تھا کہ وہ امریکی صدر سے کہیں گے کہ 'یہ ایرانیوں کو روکنے کا وقت ہے، جبکہ وہ اس معاہدے میں دوبارہ شامل نہ ہوں جو پہلے ہی زائد المیعاد ہوچکا ہے اور ان کے لیے بھی متعلقہ نہیں رہا جو اسے متعلقہ سمجھتے تھے'۔

جو بائیڈن یہ واضح کر چکے ہیں کہ وہ 2015 میں براک اوباما کی انتظامیہ کی طر ف سے کیے گئے تاریخی معاہدے کو بچانے کا راستہ تلاش کریں گے، جس سے ڈونلڈ ٹرمپ میں دستبردار ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: جوہری معاہدہ توڑنے پر امریکا سے جواب طلب کیا جائے، ایران کا اقوام متحدہ سے مطالبہ

تاہم امریکا کی ایران سے بلواسطہ بات چیت تعطل کا شکار ہے اور خطے میں بڑھتی ہوئی دشمنی کے پیش نظر واشنگٹن نے ایران پر سخت پابندیاں برقرار رکھی ہوئی ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبرداری کے فیصلے نے تہران کو موقع فراہم کردیا تھا کہ وہ وقت کے ساتھ جوہری افزودگی کے حوالے سے تمام حدیں پار کر لے، اب ملک نے یورینیم کی کم مقدار کو 63 فیصد افزودہ کرلیا ہے، جو ہتھیار بنانے کی سطح سے کچھ دور ہے جبکہ معاہدے کے تحت اسے 3.67 یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایران کا جوہری معاہدے سے مکمل دستبرداری کا اعلان

جو بائیڈن اور نفتالی بینیٹ کی ملاقات ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی کے حلف اٹھانے کے کئی ہفتوں بعد ہورہی ہے۔

60 سالہ ابراہیم رئیسی کو تجویز دی گئی تھی کہ وہ امریکا کے ساتھ بات کریں لیکن وہ بھی اپنے سخت مؤقف پر قائم ہیں اور ایسے کسی مذاکرات سے انکار کردیا ہے جن کا مقصد ایرانی میزائل کی ترقی اور علاقائی ملیشیاز کی حمایت کو محدود کرنا ہے، یہ وہ نکات ہیں جنہیں بائیڈن انتظامیہ نئے معاہدے میں شامل کرنا چاہتی ہے۔

انتظامیہ کے عہدیداروں نے ایران کی طاقت میں پیش رفت کو تسلیم کیا ہے کہ ایک ایٹمی ہتھیار کے لیے فیزائل مواد جمع کرنے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے، لیکن یہ اب مہینوں یا اس سے کم وقت کی بات ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں