کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونا کسی زہریلے سانپ کے ڈسنے جیسا ہوتا ہے، تحقیق

30 اگست 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی گئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی گئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کورونا وائرس سے بہت زیادہ بیمار ہونا بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ کو کسی بہت زہریلے سانپ نے ڈس لیا ہو۔

یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔

نیویارک کی اسٹونی بروک یونیورسٹی کی تحقیق میں کورونا وائرس کے مریضوں میں ایک ایسے انزائمے کو شناخت کیا گیا جو جسم میں اس طرح تباہی مچاتا ہے جیسے کسی زہریلے سانپ کے زہر میں موجود اعصاب پر اثرانداز ہونے والا زہریلا مادہ۔

تحقیق میں کووڈ کے مریضوں کے 2 گروپس سے حاصل کیے گئے خون کے نمونوں کا تجزیہ کرنے پر اس انزائمے sPLA2-IIA کی گردش کو دریافت کیا گیا جو بیماری کی سنگین شدت کی پیشگوئی کرسکتا ہے۔

اس مقصد کے لیے جنوری سے جولائی 2020 کے دوران اسٹونی بروک یونیورسٹی میں زیرعلاج رہنے والے کووڈ مریضوں کے میڈیکل چارٹس اور ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔

اسی طرح جنوری سے نومبر 2020 کے دوران اسٹونی بروک اور بینر یونیورسٹی میڈیکل سینٹر میں زیرعلاجج رہنے والے 154 مریضوں کے نمونے بھی حاصل کی گئے۔

محققین کا کہنا تھا کہ یقیناً گروپس میں شامل افراد کی تعداد زیادہ نہیں تھی مگر ہر مریض کے تمام کلینکل پیرامیٹرز کو دیکھ کر ان کو پیش آنے والے حالات کو مدنظر رکھا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اکثر تحقیق میں برسوں تک کام جاری رکھا جاتا ہے مگر ہم نے آئی سی یو میں رئیل ٹائم میں یہ کام کیا۔

محققین مشین لرننگ الگورتھمز کی مدد سے مریضوں کے ہزاروں ڈیٹا پوائنٹس کا تجزیہ کرنے کے قابل ہوئے، روایتی عنار جیسے عمر، جسمانی حجم اور پہلے سے مختلف بیماریوں کے ساتھ انہوں نے بائیو کیمیکل انزائموں پر بھی توجہ مرکوز کی۔

انہوں نے دریافت کیا کہ صحت مند افراد میں sPLA2-IIA انزائمے کی مقدار آدھا نانوگرام فی ملی لیٹر تھی جبکہ کووڈ کی سنگین شدت کرنے والے مریضوں میں یہ مقدار 10 نانوگرام فی ملی میٹر تھی۔

انہوں نے بتایا کہ کووڈ کے باعث ہلاک ہونے والے کچھ مریضوں میں اس انزائمے کی مقدار اب تک کی سب سے زیادہ دریافت ہوئی۔

اس انزائمے کے بارے میں یہ پہلے سے معلوم ہے کہ یہ بیکٹریل بیماریوں کے خلاف دفاع میں اہم کردار ادا کرتا ہے جبکہ صحت مند افراد میں اس کا اجتماع کی سطح کم ہوتی ہے۔

محققین نے بتایا کہ جب یہ انزائمے زیادہ مقدار میں گردش کرنے لگے تو اس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اہم اعضا کی غلافی جھلیوں کو ٹکڑے ٹکرے کردے۔

انہوں نے کہا کہ یہ انزائمے وائرس کو مارنے کی کوشش کرتا ہے مگر ایک مخصوص موقع پر یہ اتنی زیادہ مقدار میں خارج ہوتا ہے کہ حالات بدترین سمت کی جانب بڑھنے لگتے ہیں، کیونکہ یہ مریض کے خلیات کی جھلیوں کو تباہ کرکے متعدد اعضا کے افعال فیل کرنے اور موت کا باعث بن جاتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس انزائمے کی روک تھام کے لیے دستیاب علاج سے مریضوں میں کووڈ کی شدت کو بڑھنے سے روکنے یا موت سے بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس انزائمے کی جینیاتی خاصیت سانپ کے زہر میں موجود بنیادی انزائمے سے ملتی لتی ہے، جس طرح زہر جسم سے گزرتے ہوئے مسلز کے افعال کو ناکارہ بناتا ہے، ایسے ہی کووڈ کے مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ لگ بھگ ایک تہائی مریضوں کو لانگ کووڈ کا سامنا ہوتا ہے اور ان میں سے بیشتر بیماری سے قبل جسمانی طور پر کافی متحرک ہوتے ہیں مگر بیماری کے بعد 100 گز چلنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔

محققین کے مطابق اگر انزائمے کی مقدار بیماری کے بعد بھی زیادہ ہو تو یہ بھی لانگ کووڈ کی ایک ممکنہ وجہ ہوسکتی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف کلینکل انویسٹی گیشن میں شائع ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں