شہباز شریف نے قومی حکومت نہیں، قومی مفاہمت کی بات کی تھی، مریم نواز

اپ ڈیٹ 01 ستمبر 2021
انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری کوشش ہونی چاہے کہ حکومت کا راستہ روکا جائے---فوٹو: ڈان نیوز
انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری کوشش ہونی چاہے کہ حکومت کا راستہ روکا جائے---فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرا ذاتی خیال ہے کہ شہباز شریف نے قومی حکومت نہیں بلکہ قومی مفاہمت کی بات کی تھی، حکمراں جماعت نے ملک کا جو حال کیا ہے اس کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ مفاہمت تو دور کی بات، ان سے بات بھی کرنی چاہیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ کیس کی سماعت کے بعد احاطہ عدالت میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری کوشش ہونی چاہے کہ حکومت کا راستہ اور آئندہ عام انتخابات میں دھاندلی کے لیے بنائے گئے منصوبوں کو روکا جائے تاکہ مسلط کی گئی حکومت سے چھٹکارا حاصل ہوسکے۔

مزید پڑھیں: سلیکٹرز آئندہ پاکستان کے ساتھ ایسا کام نہ کرو، مریم نواز

قومی حکومت سے متعلق سوال کے جواب میں مریم نواز نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے حوالے سے کہا کہ 'میرا ذاتی خیال ہے کہ انہوں نے قومی حکومت کی بات نہیں کی ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'شہباز شریف نے یقینی طور پر قومی مفاہمت کی بات کی تھی، اس وقت ملک جس قدر منقسم ہے اس پر حکومت سے باہر تمام سیاسی جماعتوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ اس ملک کو ترقی کی راہ پر کیسے گامزن کریں'۔

حکومت کی تین سالہ کارکردگی رپورٹ سے متعلق سوال کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے کہا کہ کارکردگی سے مراد کچھ اچھا، کچھ بُرا ہوتا ہے جبکہ یہ تو کارکردگی رپورٹ ہی نہیں ہے بلکہ تباہی اور بربادی رپورٹ کہنا چاہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنی نااہل، بے حس اور نالائق حکومت نہیں آئی ہے، گزشتہ تین برسوں میں آٹا، گھی، چینی سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی نہیں آئی، کسی نے نہیں سنا کہ بجلی کے بل کم ہوگئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی حکومت چلانے کی تیاری نہیں لیکن تابعداری کی پوری تیاری تھی، مریم نواز

مریم نواز نے ریپ کے کیسز میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح ان کیسز کی تفتیش کی جارہی ہے، اس کی بدترین مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی، اس حکومت میں لاقانونیت بڑھ گئی ہے لیکن انہیں کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے، وہ بس اپوزیشن کو زیر کرنے میں کوشاں ہے۔

انہوں نے میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ 'افسوس کی بات ہے کہ میڈیا کی زباں بندی پر حکومت کا زور ہے لیکن خود اپنے کردار کا احتساب نہیں کرنا چاہتی'۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کو سچ دکھانے، کہنے سے روکنے کے لیے جو حربے استعمال کیے جارے ہیں ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

مریم نواز نے صحافی مطیع اللہ کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ اس کی تازہ مثال ہیں جبکہ حامد میر، عامر میر، اسد طور، ابصار عالم سمیت دیگر کو سچ کہنے کی پاداش میں نوکریوں سے فارغ کرادیا گیا اور اب وہ یوٹیوب پر اپنے پروگرام کرنے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے کہا میرا ایک ہی بیٹا ہے جس کی شادی میں شرکت نہیں کرسکی، حکومت سے بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت مانگی اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ تھا۔

مزید پڑھیں: پی ڈی ایم حکومت کو گھر بھیج کر دم لے گی، مریم نواز

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف ضرور واپس آئیں گے، یہ ان کا بھی ملک ہے لیکن اس حکومت کے سیاسی انتقام کے سامنے پیش ہونے میں کوئی عقلمندی نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ میری تقریر پی ٹی وی پر نشر کی تو وہ (وزیر اعظم عمران خان) پی ٹی وی کے عملے کو پکڑ کر سب کو جیلوں میں بند کردیں گے۔

سزا کے خلاف درخواستوں پر سماعت

قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی احتساب عدالت سے سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔

دوران سماعت قومی احتساب بیور (نیب) کے پراسیکیوٹر عثمان چیمہ، سردار مظفر عباسی بھی پیش ہوئے جبکہ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل امجد پرویز نے آج درخواست ملتوی کرنے کی استدعا کی۔ ‏ مریم نواز کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں تاخیر سے آمد اور اونچی آواز میں کارکنوں کے سلام کا جواب دینے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

عدالت نے ریماکس دیے کہ اب تو ضمانت واپس لے لینی چاہیے، آپ کو معلوم نہیں کہ عدالتی ڈیکورم کیا ہے۔

جس پر نیب کی جانب سے کہا گیا کہ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی غیر موجودگی میں نیب کی ضمانت ری کال بنتی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ پہلے نیب کی ضمانت خارج کرنے کی استدعا نہیں سن رہے تھے لیکن اب سنیں گے۔

دوران سماعت جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جسے یہی نہیں پتا کہ عدالت میں کیسے آتے ہیں اس کی ضمانت خارج کیوں نہ کریں؟

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کردی۔

ایون فیلڈ ریفرنس فیصلہ

خیال رہے کہ 6 جولائی 2018 کو شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

اس کے علاوہ احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے لندن میں قائم ایون فیلڈ پراپرٹی ضبط کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

بعد ازاں نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، جہاں 19 ستمبر 2018 کو ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کی جانب سے سزا دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

جس کے بعد 22 اکتوبر 2018 کو نیب نے نواز شریف کی رہائی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائر صفدر کی سزا معطلی کے خلاف قومی احتساب بیورو کی اپیل خارج کردی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں