سقوط کابل سے قبل بائیڈن اور اشرف غنی میں فون پر آخری بات کیا ہوئی تھی؟

اپ ڈیٹ 02 ستمبر 2021
آخری ٹیلیفونک رابطے میں دونوں رہنماؤں نے فوجی امداد، اسٹریٹیجی اور حکمت عملی پر بات کی— فوٹو: رائٹرز
آخری ٹیلیفونک رابطے میں دونوں رہنماؤں نے فوجی امداد، اسٹریٹیجی اور حکمت عملی پر بات کی— فوٹو: رائٹرز

افغانستان پر طالبان کے کنٹرول سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے افغان ہم منصب اشرف غنی کے درمیان آخری ٹیلیفونک رابطے میں دونوں رہنماؤں نے فوجی امداد، اسٹریٹجی اور حکمت عملی پر بات کی تھی۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو کا متن خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے دیکھا اور ان کے مطابق بائیڈن اور اشرف غنی دونوں ہی اس بات سے لاعلم نظر آتے تھے کہ طالبان جلد پورے ملک کے اقتدار پر کنٹرول حاصل کر لیں گے۔

مزید پڑھیں: جوبائیڈن نے افغان فوج اور ٹرمپ کو ‘ذلت آمیز’ انخلا کا ذمہ دار قرار دے دیا

15 اگست کو اشرف غنی صدارتی محل سے بیرون ملک فرار ہو گئے تھے اور طالبان کابل میں داخل ہوئے، اس وقت سے اب تک ہزاروں مایوس افغان ملک سے فرار ہو چکے ہیں اور انخلا کے اس عمل کے دوران کابل کے ہوائی اڈے پر ہونے والے دھماکے میں 13 امریکی فوجی اور درجنوں افغان شہری مارے گئے تھے۔

رائٹرز نے صدارتی فون کال کے ٹرانسکرپٹ کا جائزہ لیا اور گفتگو کی تصدیق کے لیے آڈیو کو سنا، یہ مواد نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک ذریعے نے فراہم کیا کیونکہ وہ اسے تقسیم کرنے کا مجاز نہیں تھا۔

کال میں بائیڈن نے کہا تھا کہ اگر اشرف غنی عوامی سطح پر افغانستان میں بڑھتی ہوئی صورتحال کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ پیش کر سکتے ہیں تو وہ امداد کے لیے تیار ہیں۔

جو بائیڈن نے کہا تھا کہ اگر ہمیں پتا ہو کہ منصوبہ کیا ہے تو ہم فضائی مدد فراہم کرتے رہیں گے، مذکورہ کال سے کچھ دن پہلے امریکا نے افغان سیکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے فضائی حملے کیے تھے اور طالبان نے کہا تھا کہ یہ حملے دوحہ امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں طالبان کو درپیش 5 چیلنجز

امریکی صدر نے اشرف غنی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ آگے بڑھنے کی فوجی حکمت عملی کے طور پر طاقتور افغانوں کو خرید لیں اور وزیر دفاع بسم اللہ خان محمدی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ افغان صدر ایک طاقتور فرد کو ان افراد کا انچارج مقرر کردیں۔

سوچ کا مسئلہ

بائیڈن نے افغان مسلح افواج کی تعریف کی جنہیں امریکی حکومت نے تربیت اور مالی اعانت فراہم کی تھی۔

انہوں نے اشرف غنی سے کہا تھا کہ آپ کے پاس بہترین فوج ہے، آپ کے پاس 70 سے 80 ہزار طالبان کے مقابلے کے لیے 3 لاکھ مسلح فوجی ہیں اور وہ اچھی طرح لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

کچھ دن بعد افغان فوج نے ملک کے صوبائی دارالحکومتوں میں طالبان کے خلاف معمولی مزاحمت کے بعد ہی ہتھیار ڈالنا شروع کر دیے تھے۔

اس کال کے زیادہ تر حصے میں بائیڈن نے اس بات پر توجہ مرکوز کی جسے انہوں نے 'افغان حکومت کی سوچ کا مسئلہ قرار' دیا۔

مزید پڑھیں: کابل سے غیر ملکی فوجی انخلا: آگے کیا ہوگا؟

جو بائیڈن نے کہا کہ مجھے آپ کو دنیا بھر اور افغانستان کے کچھ حصوں میں قائم ہونے والے تاثر اور سوچ کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں کہ طالبان کے خلاف جنگ کے حوالے سے حالات ٹھیک نہیں ہیں اور یہ سچ ہو یا نہیں لیکن ایک مختلف تصویر کشی کی ضرورت ہے۔

بائیڈن نے اشرف غنی سے مزید کہا کہ اگر افغانستان کی ممتاز سیاسی شخصیات ایک نئی عسکری حکمت عملی کی حمایت کرتے ہوئے ایک ساتھ پریس کانفرنس کریں گی تو اس سے سوچ اور تاثر بدل جائے گا اور اس سے میرے خیال میں بہت زیادہ تبدیلی آئے گی۔

امریکی صدر کے الفاظ اس بات کا عندیا دے رہے تھے کہ وہ 23 دن کے اندر اندر حکومت کے خاتمے اور طالبان کے اقتدار پر کنٹرول کی توقع نہیں کررہے تھے۔

بائیڈن نے کہا تھا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سخت سفارتی، سیاسی و معاشی جدوجہد جاری رکھیں گے کہ ناصرف آپ کی حکومت قائم رہے بلکہ وہ ترقی بھی کرے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان چھوڑنے والے آخری 'امریکی فوجی' کا سوویت یونین کے انخلا سے موازنہ

وائٹ ہاؤس نے اس حوالے سے منگل کو کال پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

کال کے بعد وائٹ ہاؤس نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس بات پر توجہ دی گئی تھی کہ بائیڈن کانگریس کے فنڈز سے افغان سیکیورٹی فورسز اور انتظامیہ کی حمایت کے لیے پرعزم ہیں۔

اشرف غنی نے بائیڈن کو بتایا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ اگر ہم فوجی حل میں توازن پیدا کر سکتے ہیں تو امن ہو سکتا ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں رفتار کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

اشرف غنی نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم ایک بڑے پیمانے پر حملے کا سامنا کر رہے ہیں اور پاکستان پر الزام لگایا تھا کہ وہ اس حملے کی منصوبہ اور اس کے لیے سہولیات فراہم کررہا ہے جس کے نتیجے میں کم از کم 10 سے 15ہزار بین الاقوامی دہشت گرد مہم میں حصہ لیں گے۔

الزامات کا کھیل

افغان حکومتی عہدیدار اور امریکی ماہرین طالبان کی بحالی اور طاقت کے حصول میں پاکستان کی جانب سے حمایت کو سب سے کلیدی قرار دیتے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان: پنج شیر میں مزاحمتی فورسز کے ساتھ جھڑپ، '8 طالبان جنگجو مارے گئے'

واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانہ ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے، سفارت خانے کے ترجمان نے رائٹرز کو بتایا کہ طالبان جنگجوؤں کا پاکستان سے جانے کا افسانہ بدقسمتی سے ایک عذر ہے، یہ اشرف غنی کی قیادت اور حکومت کو ناکامی سے بچانے کے لیے جواز پیش کرنے کا ایک بہانہ ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے 16 جولائی کو افغان امن عمل میں پاکستان کے منفی کردار کے حوالے سے اشرف غنی کے بے بنیاد دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کی صورتحال کے لیے ہمارے ملک کو ذمہ دار ٹھہرانا ناانصافی ہے۔

وزیر اعظم نے ازبکستان کے دو روزہ دورے کے دوران کہا تھا کہ مجھے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ملک جو افغانستان میں ہنگاموں سے سب سے زیادہ متاثر ہوگا وہ پاکستان ہے، پاکستان کو پچھلے 15 سالوں میں 70 ہزار سے زائد قیمتی انسانی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

دفتر خارجہ نے اس سے قبل افغان صدر کے اس بیان کو غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔

ایک بیان میں دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بے بنیاد الزامات دو برادر ممالک کے درمیان اعتماد کو ختم اور ماحول خراب کرنے کے ساتھ ساتھ افغان امن عمل کو سہل بنانے میں پاکستان کے تعمیری کردار کو نظر انداز کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سقوطِ کابل کیلئے پاکستان کو ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے، اسد مجید خان

رائٹرز نے مذکورہ کال اور متن کے حوالے سے اشرف غنی سے رابطے کی کوشش کی لیکن کوئی کامیابی نہ مل سکی، اشرف غنی کا آخری بیان 18 اگست کو آیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ خونریزی روکنے کے لیے افغانستان سے گئے ہیں۔

کال کے وقت تک امریکا افغانستان سے منصوبہ بندی کے تحت انخلا میں مصروف تھا کیونکہ بائیڈن نے اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اعلان کردہ مئی کی تاریخ میں تبدیلی کرتے ہوئے اس عمل کو اگست تک موخر کردیا تھا، امریکی فوج نے جولائی کے اوائل میں افغانستان میں بگرام میں واقع اپنا اہم فوجی اڈہ بی خالی کر دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں