کووڈ کے مریضوں میں صحتیابی کے بعد گردوں کے امراض کا خطرہ بڑھنے کا انکشاف

01 ستمبر 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی گئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی گئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے متعدد افراد کو بیماری سے سنبھلنے کے بعد کئی ہفتوں یا مہینوں تک مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

بیماری کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

اس بارے میں جاننے کے لیے طبی ماہرین کی جانب سے مسلسل کام کیا جارہا ہے اور اب انکشاف ہوا کہ لانگ کووڈ کے مریضوں میں گردوں کے افعال نمایاں حد تک متاثر ہوتے ہیں۔

درحقیقت ایسا ان افراد کے ساتھ بھی ہوتا ہے جن میں کووڈ کی شدت معمولی ہوتی ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں امریکی ہیلتھ ڈیٹا کا گہرائی سے جائزہ لیا گیا تھا اور دریافت ہوا کہ کورونا وائرس سے گردوں کو نقصان پہنچنے، دائمی اور آخری مرحلے کے گردوں کے امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

گردوں کے افعال متاثر ہونے اور امراض کو خاموش قاتل کہا جاتا ہے کہ کیونکہ اکثر تکلیف اور علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

کڈنی فائؤنڈیشن کے تخمینے کے مطابق گردوں کے مسائل کے شکار 90 فیصد افراد کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔

اس تحقیق یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف ویٹرنز افیئرز کے یکم مارچ 2020 سے یکم مارچ 2021 تک کے 17 لاکھ صحت مند اور کووڈ سے متاثر افراد کے میڈیکل ریکارڈز کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

ان افراد میں سے 89 ہزار 216 میں کووڈ کی تصدیق ہوئی تھی جن میں سے زیادہ تر مرد تھے اور ان کی عمر 60 سے 70 سال کے درمیان تھیں مگر محققین نے الگ سے ایک لاکھ 51 ہزار سے زیادہ خواتین کے ڈیٹا کا تجزیہ بھی کیا جن میں سے 8817 میں کووڈ کی تصدیق ہوئی۔

12 ہزار 376 (13.9 فیصد) مریضوں کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا جن میں سے 4146 کو آئی سی یو نگہداشت کی ضرورت بھی پڑی۔

محققین کا کہنا تھا کہ گردوں کے افعال میں نمایاں کمی کا خطرہ سب سے زیادہ آئی سی یو میں داخل ہونے والے مریضوں کو ہوتا ہے مگر یہ بھی اہم ہے کہ اس خطرے کا سامنا تمام مریضوں کو ہوسکتا ہے، چاہے بیماری کی شدت معمولی ہی کیوں نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق کے نتائج کووڈ کے مریضوں میں گردوں کے افعال اور امراض پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، لاکھوں افراد کو اندازہ ہی نہیں کہ وائرس سے ان کے گردوں کے افعال متاثر ہوسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ماننا ہے کہ امریکا میں کووڈ کے مجموعی مریضوں میں سے 5 لاکھ 10 ہزار افراد کے گردوں کو نقصان پہنچ چکا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ابتدائی مرحلے میں گردوں کے مسائل کو دریافت کرلیا جائے، ورنہ اس کا علاج مشکل ہوجاتا ہے۔

محققین کے مطابق گردوں کے مسائل کا عموماً علم ہی اس وقت ہوتا ہے جب کوئی فرد کسی وجہ سے اپنا طبی معائنہ کراتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ سے محفوظ رہنے والے افراد کے مقابلے میں اس کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد میں گردوں کے امراض کا خطرہ 15 فیصد جبکہ گردوں کی اننجری کا خطرہ 30 فیصد زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

اسی طرح کووڈ سے ہسپتال اور آئی سی یو میں زیرعللاج رہنے والے افراد میں یہ خطرہ 8 سے 13 3گنا تک بڑھ جاتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے ہمیں ابھی تک معلوم نہیں کہ آنے والے برسوں میں لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد کو کن طبی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ کووڈ کی بتدائی بیماری کے 30 دن بعد 4757 مریضوں کے گردوں کے افعال میں 30 فیصد یا اس سے زیادہ کمی آئی۔

محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ جن افراد کو کووڈ کی معمولی شدت کا سامنا ہوتا ہے ان میں گردوں کے افعال میں کمی کا خطرہ 1.09 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں 2 گنا جبکہ آئی سی یو میں رہنے والے مریضوں میں 3 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف دی امریکن سوسائٹی آف نیفرولوجی میں شائع ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں