افغانوں سے لاتعلقی، خطے میں عالمی دہشت گردوں کیلئے جگہ ہموار کرسکتی ہے، شاہ محمود قریشی

اپ ڈیٹ 02 ستمبر 2021
انہوں نے کہا کہ دنیا 1990 کی دہائی میں اسی ’غلطی‘ کی مرتکب ہوئی تھی اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ایسا کوئی عمل دوبارہ نہ دہرائیں----فوٹو:اسکائی نیوز
انہوں نے کہا کہ دنیا 1990 کی دہائی میں اسی ’غلطی‘ کی مرتکب ہوئی تھی اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ایسا کوئی عمل دوبارہ نہ دہرائیں----فوٹو:اسکائی نیوز

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عالمی برادری سے افغانستان کے لوگوں کو تنہا چھوڑنے کی ’غلطی‘ نہ دہرانے پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ایسا کرنے اور طالبان کے ساتھ لاتعلقی کے نتیجے میں بین الاقوامی دہشت گرد تنظیمیں افغانستان میں اپنی جگہ بنا لیں گی۔

برطانیہ کے اسکائی نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں وزیر خارجہ نے کہا کہ 20 سال بعد افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد عالمی برادری کے پاس طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے یا الگ تھلگ ہونے کے اختیارات ہیں۔

مزید پڑھیں: عالمی برادری افغانستان کو تنہا نہ چھوڑے، شاہ محمود قریشی

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو اپنے اختیارات پر غور کرنا ہوگا اور افغانستان کو تنہا چھوڑنا ’خطرناک آپشن‘ ہوگا۔

شاہ محمود قریشی نے اس بات پر زور دیا کہ ’یہ آپشن دراصل افغان عوام کو چھوڑنے کا باعث بنے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ دنیا 1990 کی دہائی میں اسی ’غلطی‘ کی مرتکب ہوئی تھی اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ایسا کوئی عمل دوبارہ نہ دہرائیں۔

غلطی کو دہرانے کے کیا نتائج ہوں گے؟ سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے نشاندہی کی کہ یہ عمل افغانستان میں خانہ جنگی اور انارکی کی جانب لے جا سکتا ہے اور بالآخر بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کے لیے جگہ پیدا کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ان کے (بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں) کے اثرات افغانستان میں بڑھیں۔

انٹرویو لینے والے نے نشاندہی کی کہ ایسا لگتا ہے جیسے شاہ محمود قریشی مغربی طاقتوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ طالبان کو تسلیم کریں۔

شاہ محمود قریشی نے یہ تاثر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے کہہ رہے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ’علیحدگی کے نتائج بہت زیادہ خراب ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: خطے میں افغانستان پر اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، شاہ محمود قریشی

طالبان کے ابتدائی بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے انہیں ’مثبت اور حوصلہ افزا‘ قرار دیا۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ طالبان اپنے اعلانات پر عمل درآمد کے بارے میں کتنے مخلص ہیں؟ تو انہوں نے جواب میں کہا کہ دنیا کو ان کا امتحان لینا چاہیے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں یقین ہے کہ طالبان بدل گئے ہیں تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جواب دیا کہ ’میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ مجھے امید ہے کہ انہوں نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا ہوگا'۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اور میں سمجھتا ہوں کہ طالبان اب تک جس رویے اور نقطہ نظر کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ ایک مختلف نقطہ نظر کی عکاس ہے‘۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ طالبان اپنے وعدوں پر کتنے سچے ہیں یہ جاننے کے لیے جانچنا چاہیے، ’اور اگر اپنے وعدے پورا کرتے ہیں تو اس پر یقین کریں کیونکہ دوسرا آپشن بہت خراب ہے'۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ طالبان کے لیے بین الاقوامی رائے اور اصولوں کا احترام کرنا ہوگا کیونکہ انہیں افغانستان کو چلانے کے لیے اس وقت انسانی اور مالی امداد کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید خبردار کیا کہ بغیر کسی مدد کے افغانستان کو معاشی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انٹرو کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے سقوطِ کابل کے بعد طالبان کے جھنڈے بلند کرنے اور پاکستان میں گروپ کی حمایت کے بارے میں بھی سوال کیا گیا۔

مزید پڑھیں: شاہ محمود قریشی کی ترک ہم منصب سے ملاقات، افغان امن عمل پر تبادلہ خیال

شاہ محمود قریشی نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں 40 لاکھ سے زائد افغان رہائش پذیر ہیں جن میں سے اکثر کے طالبان سے رابطے اور تعلقات تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جھنڈے ان کے گھر واپس آنے کے امکان پر خوشی میں بلند کیے گئے تھے۔

پاکستان سے ’ڈبل گیم‘ کھیلنے اور طالبان کی حمایت کرنے کے الزامات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے جواب دیا کہ پاکستان نے (افغانستان پر) عالمی برادری کے ساتھ مخلصانہ تعاون کیا، پاکستان مخلصانہ طور پر (افغانستان میں) امن چاہتا تھا۔

کیا پاکستان نے بھی طالبان کی حمایت کی ہے؟ کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی انخلا سے قبل افغان سیاسی قیادت اور طالبان کے درمیان دوحہ میں مذاکرات جاری تھے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ افغانستان سے 40 فیصد سے 45 فیصد علاقہ امریکی انخلا سے قبل ہی طالبان کے کنٹرول میں تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’انہیں (طالبان) کو ہماری (پاکستان کی) اجازت، رضامندی یا مدد کی ضرورت نہیں تھی، وہ اپنے معاملات خود سنبھال رہے تھے‘۔

اس سے قبل انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان چاہتا تھا کہ افغان امن عمل امریکی انخلا کے ساتھ مل کر آگے بڑھے، جو کہ ’ذمہ دار‘ اور ’منظم‘ ہونا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان سے امریکی انخلا ’ذمہ دار نہیں اور منظم بھی نہیں‘ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں