انسداد ہراسانی قانون پر سپریم کورٹ کے فیصلے کےخلاف نظرثانی کی درخواست دائر

اپ ڈیٹ 04 ستمبر 2021
نظرثانی کی درخواست میں کہا گیا کہ یہ ایکٹ ایک بناوٹی قانون سازی نہیں ہے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
نظرثانی کی درخواست میں کہا گیا کہ یہ ایکٹ ایک بناوٹی قانون سازی نہیں ہے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: اٹارنی جنرل (اے جی) آفس نے سپریم کورٹ میں 6 جولائی کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی جس میں عدالت نے کہا تھا کہ کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ ایکٹ 2010 (پی اے ایچ ڈبلیو ڈبلیو اے) حیرت انگیز طور پر بناوٹی قانون سازی کا ایک ٹکڑا ہے جو اس کے نفاذ سے ظاہر ہوتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈپٹی اٹارنی جنرل سید نایاب حسین گردیزی کے ذریعے دائر کی گئی درخواست میں پی اے ایچ ڈبلیو ڈبلیو اے کا دفاع کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 14، 25 (2) اور 34 خواتین کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ کی جانب سے نافذ کردہ فلاحی قانون کا ایک اہم حصہ ہے۔

مزید پڑھیں: کام کی جگہ پر ہراسانی کے قانون کا دائرہ محدود ہے، سپریم کورٹ

درخواست گزار کے مطابق ’6 جولائی کے عدالتی فیصلے میں کام کی جگہ پر صنف پر مبنی ہراسانی روکنے کا کہا گیا ہے، لہٰذا اسے عدالت کو واپس لینا چاہیے‘۔

درخواست میں وضاحت کی گئی ہے کہ اے جی آفس صرف قانونی سوالات کی حد تک جائزہ لینے کی کوشش کر رہا ہے اور اسے مخصوص حقائق سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالتی فیصلے میں ’ہراسانی‘ کی ’انتہائی محتاط‘ تشریح کی گئی ہے اور یہ ایکٹ کے نفاذ کے مقصد کو نمایاں طور پر متاثر کرے گا۔

4 ستمبر 2007 کو پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن میں عارضی بنیادوں پر بطور ریسورس پرسن تعینات ہونے والی نادیہ ناز کے معاملے کا فیصلہ کرتے ہوئے جسٹس مشیر عالم نے کہا تھا کہ جب انسداد ہراسانی قانون کا جائزہ لیا گیا تو وہ توقعات پر پورا نہیں اترا۔

یہ بھی پڑھیں: خصوصی رپورٹ: پاکستان میں خواتین کو کام کی جگہوں پر کیسے ہراساں کیا جاتا ہے

اٹارنی جنرل کے دفتر نے نظرثانی کی درخواست میں استدعا کی ہے کہ پی اے ایچ ڈبلیو ڈبلیو اے کی بعض شقوں کی تشریح کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے قواعد کے تحت اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری نہیں کیا اور یہ فیصلہ ان الفاظ پر اثر انداز ہونے میں ناکام رہا، ’ جنسی طور پر بے حرمتی کا رویہ‘ ایکٹ کے سیکشن 2 (ایچ) میں ہراساں کرنے کی تعریف میں مقننہ کی جانب سے شامل کردہ الفاظ ہے، درخواست میں دلیل دی گئی کہ یہ ایک آزاد زمرہ تھا۔

نظرثانی کی درخواست میں کہا گیا کہ یہ ایکٹ ایک بناوٹی قانون سازی نہیں ہے۔

درخواست گزار نے کہا کہ قانون صرف جائے کار پر غلط کام کرنے تک محدود نہیں تھا، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ خواتین نہ صرف جائے کار پر بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں۔

نظرثانی درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ واضح ہے کہ قانون کی زبان صرف جنسی ہراسانی تک محدود نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: اداکارہ ہوں، ’جسم فروش‘ نہیں، ہراساں کرنے والے کو مریم نفیس کا جواب

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی خاتون ملازم کو کام کی جگہ پر اس کی صنف کے مطابق ’برے برتاؤ پر مشتمل رویے‘ کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ سیکشن 2 (ایچ) میں دی گئی تعریف کے اندر ہراساں کرنے کے مترادف ہے، جبکہ یہاں لفظ 'جنسی' اس کی جنس سے متعلق ہونا چاہیے نہ کہ 'جنسی ایڈوانسمنٹ' یا 'جنسی رجحان' کے تنگ معنی میں ہونا چاہیے۔

پٹیشن میں کہا گیا کہ 6 جولائی کا فیصلہ ایک غلط فہمی پر مبنی تھا کیونکہ اس میں ’جنسی شکل کے طرز عمل‘ تک محدود کر دیا ہے۔

درخواست گزار نے کہا ہے کہ یہ ایکٹ بنیادی طور پر کام کی جگہ پر خواتین کو تحفظ اور راحت فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’بلاشبہ مرد اور عورت دونوں ہی جائے کار پر امتیازی رویے کی وجہ سے نقصان اور تعصب کا شکار ہوتے ہیں، صرف جائے کار ہی نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں مرد، مرد ہونے کے باوجود جبکہ عورتیں، عورت ہونے کی وجہ سے تکلیف اٹھاتی ہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں