مہران ٹاؤن فیکٹری کے مالکان ضمانت کی درخواست مسترد ہونے پر گرفتار

اپ ڈیٹ 08 ستمبر 2021
ملزمان کی ضمانتوں کی درخواستیں میرٹ پر نہیں ہیں اور ان کے عبوری احکامات منسوخ کیے جاتے ہیں، عدالت - فائل فوٹو:ڈان نیوز
ملزمان کی ضمانتوں کی درخواستیں میرٹ پر نہیں ہیں اور ان کے عبوری احکامات منسوخ کیے جاتے ہیں، عدالت - فائل فوٹو:ڈان نیوز

کراچی: ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے کورنگی فیکٹری اور اس کی عمارت کے مالکان اور ایک سپروائزر کی آتشزدگی سے 16 مزدوروں کی ہلاکت سے متعلق کیس میں عبوری ضمانت قبل از وقت گرفتاری کی درخواست منسوخ کردی جس کے بعد پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 27 اگست کو مبینہ طور پر بجلی کے شارٹ سرکٹ کے باعث مہران ٹاؤن میں صنعتی یونٹ، بی ایم لگیج کو آگ لگ گئی تھی جس سے 16 مزدور ہلاک ہوگئے تھے۔

پولیس نے فیکٹری کے مالک حسن میتھا عرف علی میتھا، عمارت کے مالک فیصل طارق، اس کے تین سپروائزر سید عمران علی زیدی، ظفر، ریحان اور چوکیدار سید زرین کے خلاف مزدوروں کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر مقدمہ درج کیا تھا۔

ان میں سے تین، علی میتھا، فیصل طارق اور علی زیدی نے 30 اگست کو عبوری ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی تھی اور بعد میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (ایسٹ) خالد حسین شاہانی نے ضمانت میں 7 ستمبر کے لیے توسیع کردی تھی۔

مزید پڑھیں: کراچی: کورنگی کی فیکٹری میں آتشزدگی، 16 افراد جاں بحق

منگل کو عدالت نے ڈپٹی ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر اور دفاعی وکیل کے دلائل سننے کے بعد ملزمان کی عبوری ضمانت کی درخواستوں پر اپنا فیصلہ سنایا۔

جج نے نوٹ کیا کہ مقدمے کے حقائق اور حالات کے پیش نظر مذکورہ کیس کے قانون میں وضع کردہ حکم کے مطابق درخواست گزار ضمانت کے لیے کیس ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

جج نے فیصلہ سنایا کہ 'اس کے مطابق مذکورہ بالا تینوں ضمانتوں کی درخواستیں میرٹ پر نہیں ہیں اور ان کے عبوری احکامات منسوخ کیے جاتے ہیں'۔

عینی شاہدین اور عدالتی عملے نے بتایا کہ تفتیشی افسر نے علی میتھا اور فیصل طارق کو کمرہ عدالت سے گرفتار کیا۔

تیسرے ملزم علی زیدی فوری طور پر کمرہ عدالت سے نکل گئے تھے اور فرار ہونے کی کوشش کی تھی تاہم پولیس نے پیچھا کیا اور انہیں بھی گرفتار کر لیا تھا۔

اس سے قبل فیکٹری مالک کے وکیل ایڈووکیٹ حسن صابر نے سول ڈیفنس سندھ کے ڈائریکٹر، ایڈیشنل کنٹرولر سول ڈیفنس (ایسٹ)، اسسٹنٹ ڈائریکٹر (مہران ٹاؤن) کی جانب سے جاری کردہ واقعہ کی رپورٹ، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے لینڈ ڈپارٹمنٹ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے ڈپٹی ڈائریکٹر (کورنگی)، جوائنٹ رجسٹرار آف کمپنیز، کمپنی رجسٹریشن آفیسر، جوائنٹ ڈائریکٹر لیبر (ایسٹ) ڈویژن کو لکھے گئے خطوط کی کاپیاں عدالت میں جمع کرائی تھیں۔

جج نے نوٹ کیا کہ اس طرح کی تمام خط و کتابت بدقسمت واقعے کے بعد کی گئی تھی۔

عدالت نے مزید کہا کہ ریکارڈ کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ استغاثہ کے پاس درخواست گزاروں کو مبینہ جرم سے جوڑنے کے لیے کافی مواد دستیاب تھا۔

دفاعی وکیل صابر نے یہ بھی دلیل دی کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 322 (قتل عام) کے تحت جرم صرف دیت کی رقم بطور سزا فراہم کرتا ہے اور اس طرح کے جرم ثابت ہونے پر بھی کوئی قید نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ مہران ٹاؤن: فیکٹری مالکان کے خلاف قتل عام کا مقدمہ درج، تحقیقات کا آغاز

جج نے مشاہدہ کیا کہ یہ ایک تسلیم شدہ پوزیشن ہے کہ پی پی سی کی دفعہ 322 کے تحت جرم کو کرمنل پروسیجر کوڈ کے شیڈول 2 میں ناقابل ضمانت بنایا گیا ہے۔

ایک اور دفاعی وکیل محمد حسیب جمالی نے کہا کہ ان کے موکل فیصل طارق کا جرم، فیکٹری اور مزدوروں کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ تعلق نہیں تھا کیونکہ وہ صرف اس زمین کی ملکیت رکھتے تھے جہاں فیکٹری چل رہی تھی اور 2019 میں علی میتھا نے یہ جگہ ان سے کرائے پر لیا تھا۔

جج نے مشاہدہ کیا کہ 'بلڈنگ کوڈ کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ یہ مالک ہے جسے فیکٹری قائم کرنے کے لیے اجازت لینا پڑتی ہے، اس کے مطابق عمارت کو ساختی ضرورت اور آگ سے بچاؤ کے نظام کے ساتھ تعمیر کیا جاتا ہے، فیکٹری چلانے کے لیے عمارت کرائے پر لینے سے قبل ان تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے تھا'۔

عدالت نے حکم دیا کہ 'قانونی تقاضوں کی تعمیل کی عدم موجودگی میں دلائل کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور مالک اس واقعے میں شامل ہونے والی وجوہات کے لیے یکساں طور پر ذمہ دار ہوگا'۔

جج نے فیصلہ سنایا کہ 'بلڈنگ کوڈ اور اس سے متعلقہ قوانین کی جانچ کے حوالے سے وہ حکام جو اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہے، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، لیبر ڈپارٹمنٹ اور انسپکٹرز، متعلقہ ڈپٹی کمشنر، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (سول ڈیفنس شعبہ)، یہ سب اس جرم کے ذمہ دار ہیں اور انہیں مبینہ جرم میں ملوث، تفتیش اور ذمہ داری سونپی جانی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں