پاکستان میں کاروبار، کاروباری شراکت داری اور سرمائے کے حصول کا رجحان بدل رہا ہے۔ اب کمپنیاں اپنے کاروبار کو توسیع دینے کے لیے بینک سے قرض لینے کے بجائے اسٹاک مارکیٹ کا رُخ کررہی ہیں۔ مالی سال 2021ء میں 32 کمپنیاں اسٹاک مارکیٹ سے 80 ارب روپے سے زائد کا سرمایہ حاصل کرچکی ہیں۔

اس کی وجہ کیا ہے؟

قرض لینے کے بجائے اسٹاک مارکیٹ سرمایہ کاری کی طرف جانے کی بڑی وجہ حالیہ برسوں میں بنیادی شرح سود میں ہونے والا اتار چڑھاؤ ہے۔

پاکستان میں بنیادی شرح سود 2011ء میں 14 فیصد سے زائد تھی۔ بعدازاں اس میں گراوٹ آئی اور یہ بتدریج کم ہوتے سال 2016ء میں 5 فیصد سے بھی نیچے چلی گئی۔ 2018ء تک تو یہی صورتحال برقرار رہی لیکن پھر اچانک سے شرح سود میں اضافہ دیکھا گیا۔ 2019ء میں یہ شرح دوبارہ 14 فیصد تک پہنچ گئی۔ یہ تو کہانی تھی بنیادی شرح سود کی جس پر مختلف بینک اسٹیٹ بینک سے قرض لیتے ہیں اور اس قرض پر کم از کم 4 سے 5 فیصد منافع لیتے ہیں۔

یعنی جب بنیادی شرح سود 14 فیصد ہوئی تو کمپنی پر سود کا بوجھ 18 سے 19 فیصد تک پہنچ گیا۔ یہاں ایک قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ بینک اپنے مارجن یا نفعے کو مستحکم رکھتے ہوئے فلوٹنگ ریٹ پر قرض دیتے ہیں، لہٰذا جب شرح سود بڑھتی ہے تو پرانے قرضوں پر مارک اپ بھی بڑھ جاتا ہے۔ بنیادی شرح سود کے تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے متعدد کمپنیاں دیوالیہ ہوچکی ہیں۔

پڑھیے: تابش گوہر کا مکتوب اور بجلی کے شعبے کی حالتِ زار

'پرل فیبرکس' نامی ایک کمپنی چند سال کے اندر اندر میرے سامنے دیوالیہ ہوئی اور اس کے مالک شیخ منظر عالم نے یہ کہانی مجھے میرے ایک وی لاگ میں سنائی تھی کہ کس طرح بینک سے لیا گیا قرض ان کا کاروبار لے ڈوبا۔

چونکہ کمپنیوں کے لیے سود کی ادائیگی وبال بن جاتی ہے، اس لیے اب کمپنیاں قرض کے بجائے اسٹاک مارکیٹ سے سرمایہ حاصل کررہی ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ میں اندراج اور حصص کی اوّلین عوامی فروخت یا آئی پی او سے کمپنیاں اپنی شراکت داری میں دیگر افراد کو شامل کرتی ہیں اور قرض کے بوجھ سے خود کو بچالیتی ہیں۔

مالی سال 2021ء میں 32 کمپنیاں اسٹاک مارکیٹ سے 80 ارب روپے سے زائد کا سرمایہ حاصل کرچکی ہیں—فائل/فوٹو: رائٹرز
مالی سال 2021ء میں 32 کمپنیاں اسٹاک مارکیٹ سے 80 ارب روپے سے زائد کا سرمایہ حاصل کرچکی ہیں—فائل/فوٹو: رائٹرز

مالی سال 2021ء پاکستان اسٹاک مارکیٹ کے لیے بہترین سال ثابت ہوا ہے۔ اس سال پاکستان اسٹاک مارکیٹ سے کمپنیوں نے ریکارڈ سرمایہ حاصل کیا ہے۔ کمپنیوں نے حصص کی اوّلین عوامی فروخت، رائٹ شیئرز اور بانڈز کی مد میں 80 ارب روپے سے زائد کا سرمایہ اکٹھا کیا۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں گزشتہ 5 سال میں 19 کمپنیوں کا اندراج ہوا جبکہ 2017ء سے اب تک 28 کمپنیاں ڈی لسٹ ہوچکی ہیں۔ مگر اسٹاک مارکیٹ میں کمپنیوں کے اندراج کے حوالے سے مالی سال 21ء-2020ء بہت کامیاب سال رہا۔ اس سال 8 کمپنیوں کا اندراج ہوا اور ان کمپنیوں نے 20 ارب 17 کروڑ روپے کا خطیر سرمایہ اسٹاک مارکیٹ سے حاصل کیا۔

سال 2010ء میں بھی اسٹاک مارکیٹ میں 8 نئی کمپنیوں کا اندراج ہوا تھا مگر وہ صرف 6 ارب 62 کروڑ روپے حاصل کرسکی تھیں۔ بعدازاں 2017ء میں پہلے سے زیادہ 12 کمپنیاں درج ہوئیں مگر ان کمپنیوں نے صرف 3 ارب 90 کروڑ روپے کا سرمایہ ہی حاصل کیا۔ 2007ء سے 2021ء کے درمیان پاکستان میں اسٹاک ایکسچینج میں 76 نئی کمپنیوں کا اندراج ہوا جنہوں نے مجموعی طور پر 97 ارب 39 کروڑ روپے سے زائد کا سرمایہ اکٹھا کیا۔

عارف حبیب گروپ کے ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس کہتے ہیں کہ ’مارکیٹ نے تمام اقسام کی کمپنیوں کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں اور بک بلڈنگ کے عمل میں تقریباً تمام ہی کمپنیوں کے حصص کی مقرر کردہ قیمت سے زائد پر خریدا اور بعض کمپنیوں کو مقررہ ہدف سے 40 فیصد اضافی قیمت پر حصص فروخت کے لیے پیشکش موصول ہوئی‘۔

پڑھیے: معاشی شرح نمو کا حیران کن دعویٰ، درست یا غلط؟

حصص کی اوّلین عوامی فروخت اور اسٹاک مارکیٹ میں رجسٹر ہونے والی کمپنیوں کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ مختلف شعبوں میں قائم کمپنیوں نے رجسٹریشن کے ذریعے خاصا سرمایہ اکٹھا کیا۔

نئی لسٹنگ میں دی آرگینک میٹ کمپنی (فوڈ)، ٹی پی ایل ٹریکر (ٹیکنالوجی)، آغا اسٹیل (اسٹیل)، اینگرو پولیمر اینڈ کیمیکلز، پینتھر ٹائر، سروس گلوبل فٹ ویئر، سٹی فارما اور پاکستان المونیم بیوریج کین شامل ہیں۔

موجودہ مالی سال میں ایئر لنک کمیونیکیشن کے حصص کی اوّلین عوامی فروخت مکمل ہوچکی ہے۔

ایئر لنک کمیونیکیشن لمیٹڈ پی ایس ایکس پر موجود پاکستان میں سب سے بڑی آئی پی او قرار پائی ہے جس کے نتیجے میں 6 ارب 40 کروڑ روپے اکٹھا کیے گئے جبکہ آکٹوپس نامی انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی کے حصص کی فروخت کا عمل جاری ہے۔

2007ء سے 2021ء کے درمیان پاکستان میں اسٹاک ایکسچینج میں 76 نئی کمپنیوں کا اندراج ہوا جنہوں  نے مجموعی طور پر 97 ارب 39 کروڑ روپے سے زائد کا سرمایہ اکٹھا کیا
2007ء سے 2021ء کے درمیان پاکستان میں اسٹاک ایکسچینج میں 76 نئی کمپنیوں کا اندراج ہوا جنہوں نے مجموعی طور پر 97 ارب 39 کروڑ روپے سے زائد کا سرمایہ اکٹھا کیا

حصص کی اوّلین عوامی فروخت کے علاوہ گزشتہ مالی سال کے دوران کمپنیوں نے بڑے پیمانے پر رائٹ شیئرز کا اجرا بھی کیا۔ رائٹ شیئرز وہ کمپنیاں جاری کرتی ہیں جو اسٹاک مارکیٹ میں پہلے سے درج ہوں اور اپنے کاروبار میں توسیع کے لیے سرمایہ کاری چاہتی ہیں۔ کمپنیاں نئے حصص کا اجرا کرتی ہیں اور انہیں خریدنے کا پہلا اختیار موجودہ حصص یافتگان یا شراکت داروں کو دیا جاتا ہے۔ اگر وہ شراکت دار خریدنے سے انکار کریں تو پھر دیگر سرمایہ کاروں کو یہ حصص خریدنے کی پیشکش کی جاتی ہے۔

پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں گزشتہ مالی سال کے دوران 24 کمپنیوں نے اپنے رائٹ شیئرز کا اجرا کیا اور مجموعی طور پر 49 ارب 54 کروڑ روپے سے زائد کا سرمایہ حاصل کیا۔ شیل پاکستان نے 100 فیصد حصص کے رائٹ شیئرز جاری کرکے سب سے زیادہ 11 ارب 55 کروڑ روپے کا سرمایہ حاصل کیا جبکہ فیصدی لحاظ سے سب سے زیادہ 190 فیصد مچلز فارمز نے رائٹ شیئرز جاری کرکے 75 کروڑ روپے کا سرمایہ حاصل کیا ہے۔ فوجی فرٹیلائزر بن قاسم نے 5 ارب روپے، دی سیرل کمپنی نے 4 ارب 69 کروڑ روپے، یونائیٹڈ فوڈز نے 4 ارب 50 کروڑ روپے مالیت کے رائٹ شیئرز جاری کیے۔

کیا دنیا کے دیگر حصوں میں بھی سرمائے کے حصول کے لیے کمپنیاں اپنے اپنے ملکوں کی اسٹاک مارکیٹ کا رخ کررہی ہیں؟

اس کا جواب ہاں ہے۔ امریکی ایکویٹی اور سرمایہ کاری کے ادارے پی ڈبلیو سی کے مطابق سال 2021ء کی دوسری سہ ماہی میں عالمی سطح پر مجموعی طور پر 582 کاروباری اداروں نے پہلی بار اپنے حصص عوامی فروخت کے لیے پیش کیے جس سے اداروں نے 131 ارب ڈالر کا سرمایہ اکٹھا کیا جبکہ سال کی پہلی سہ ماہی میں 727 آئی پی او رجسٹر ہوئے اور کمپنیاں 202 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے حصص کی اوّلین عوامی فروخت میں کامیاب رہیں۔

2021ء کی پہلی سہ ماہی میں 51 فیصد سرمایہ کاری امریکا، 18 فیصد جرمنی اور 10 فیصد چین میں ہوئی۔ ماہرین یہ امید ظاہر کررہے ہیں کہ مستقبل قریب میں دنیا بھر میں کمپنیاں سرمائے کے حصول کے لیے اسٹاک مارکیٹ کا رخ کرتی رہیں گی۔

گزشتہ 2 سال سے ایشیائی خطے میں 200 سے زائد کمپنیاں اسٹاک مارکیٹ میں رجسٹریشن کے لیے آتی ہیں اور ہر سہ ماہی میں تقریباً 35 سے 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرلیتی ہیں۔

دنیا بھر سے کاروباری خبریں دینے والی ویب سائٹ فورچون کے مطابق لندن اسٹاک ایکسچینج میں موجودہ سال کی پہلی ششماہی کے دوران آئی پی او میں 467 فیصد اضافہ ہوا۔ 49 کمپنیوں کی نئی لسٹنگ ہوئی (جن میں سے 8 ٹیکنالوجی بیسڈ کمپنیاں ہیں) اور 27 ارب برطانوی پاؤنڈ کا سرمایہ اکٹھا کیا گیا۔

نیویارک اسٹاک ایکسچینج
نیویارک اسٹاک ایکسچینج

اسی طرح ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی کمپنیاں اسٹاک مارکیٹ کا رخ کررہی ہیں۔ بمبئی اسٹاک کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن 3 ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔ سال 2021ء میں 60 نئی کمپنیوں نے حصص کی اوّلین عوامی فروخت کا اعلان کیا ہے جس میں سے 28 کی فروخت مکمل ہوچکی ہے۔ سابقہ مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش میں 15 آئی پی اوز کی منظوری دیدی گئی ہے۔

اگر پاکستان کا موازنہ خطے کی دیگر مارکیٹس سے کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کاروں کی تعداد صرف ڈھائی لاکھ ہے جبکہ چین میں یہ تعداد 17 کروڑ، بھارت میں 5 کروڑ اور بنگلہ دیش میں 29 لاکھ ہے۔

پاکستان میں اکثر کمپنی مالکان اپنی کمپنی پر کنٹرول برقرار رکھنا چاہتے ہیں اس لیے بہت ہی کم مالیت کے حصص شراکت داری کے لیے پیش کرتے ہیں، اس وجہ سے کمپنیوں کا فری فلوٹ بھی بہت کم ہے۔ مئی 2017ء میں مارکیٹ کیپٹلائزیشن 100 ارب ڈالر تھی، جس کا مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) تناسب 35 فیصد تھا مگر مارکیٹ میں مسلسل گراوٹ اور روپے کی قدر میں کمی کے باعث 50 ارب ڈالر کے ساتھ جی ڈی پی تناسب 20 فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے۔

پڑھیے: ’اسٹیٹ بینک کو خودمختار ہونا چاہیے مگر آزاد نہیں‘

جے ایس گلوبل کے چیف ایگزیکیٹو کامران ناصر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں اسٹاک مارکیٹ بہت پیچھے ہے مگر بہتری کی امید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور اس اعتماد کو مزید تقویت دینے کے لیے حکومت کو سرمایہ کاری کی مختلف کلاسوں میں فرق ختم کرنا ہوگا۔ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کار کو بہت سخت نگرانی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ جائیداد، سونا یا قومی بچت میں سرمایہ کاری سہل اور آسان ہے۔ شناختی کارڈ پر اکاؤنٹ کھل جائے گا تو کوئی پوچھے گا بھی نہیں کہ پیسہ کہاں سے آیا، اس فرق کو ختم کرنا ہوگا اس کے بعد ہی زیادہ لوگ ریگولیٹڈ اور اسٹرکچرڈ مارکیٹوں کا رخ کریں گے'۔

ماہرین کے مطابق کمپنیوں کی جانب سے اسٹاک مارکیٹ کا رخ کرنے کی بڑی وجہ کاروبار میں نئی نسل کی آمد بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب خاندانوں تک محدود اکثر کمپنیوں میں دوسری یا تیسری نسل بورڈ کا حصہ بن چکی ہے۔ نئی نسل تعلیم یافتہ اور ملکی و غیر ملکی کاروباری ریگولیشن سے واقفیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ نئے مالکان بینک سے قرض لینے کے بجائے ایکویٹی کی بنیاد پر توسیع چاہتے ہیں۔ وہ خاندان کے افراد کے علاوہ دیگر افراد کو بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کرکے کمپنی میں نئی سرمایہ کاری اور نئی سوچ بھی لارہے ہیں۔ یہی نئی سوچ پاکستان کو ترقی کی نئی بلندیوں کی جانب لے جاسکے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں