ججز تعیناتی پر وکلا کے احتجاج کے محرکات سمجھ سے بالاتر ہیں، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 13 ستمبر 2021
سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کے حوالے سے فل کورٹ ریفرنس منعقد کیا گیا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کے حوالے سے فل کورٹ ریفرنس منعقد کیا گیا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے کہا ہے کہ ججز کی تعیناتی کے معاملے پر ہمیشہ بار کونسلز کی رائے لی گئی ہے، سمجھ نہیں آتا کہ ججز کے تقرر پر احتجاج کے پیچھے اصل محرکات کیا تھے۔

سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کے حوالے سے فل کورٹ ریفرنس میں خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کورونا وائرس کے باعث مقدمات نمٹانے کی راہ میں مشکلات کا سامنا رہا اس کے باوجود عدالتوں کا دروازہ عوام کے لیے کھلا رکھا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ججز تعیناتی کے معاملے پر بار کونسلز نے یک طرفہ مؤقف اپناتے ہوئے معاملے کو اٹھایا، اس معاملے پر بار کونسلز کے صدور کو متعدد مرتبہ دعوت دی لیکن انہوں نے پشاور جانے کا بتایا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی پر اتفاق نہ ہوسکا

جیف جسٹس آف پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ بار کونسلز اور وکلا کے لیے اب بھی دروازے کھلے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ عدالتی سال دنیا بھر سمیت پاکستان کے لیے مشکل سال تھا، اسی وجہ سے زیر التوا مقدمات میں اضافہ ہوا۔

سپریم کورٹ میں گزشتہ عدالتی سال میں 45 ہزار 644 مقدمات زیر التوا تھے جبکہ گزشتہ سال 20 ہزار 910 نئے مقدمات درج ہوئے جبکہ 12 ہزار 968 نمٹائے گئے۔

خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کی سینیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی کے معاملے پر وکلا تنظیموں اور بار کونسلز کی جانب سے سخت مخالفت دیکھنے میں آئی تھی جن کا مطالبہ تھا کہ ترقی کے سلسلے میں سینیارٹی کے اصولوں کو مدِنظر رکھا جائے۔

چنانچہ 9 ستمبر کو جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی پرغور کے لیے جوڈیشل کمیشن پاکستان کا طویل اجلاس ہوا جبکہ قریب ہی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کمپلیکس میں وکلا کا احتجاج اور کنونشن جاری تھا۔

تاہم اجلاس میں عدم اتفاق رائے اتفاق رائے کے باعث جسٹس عائشہ ملک کی بطور پہلی خاتون جج سپریم کورٹ میں ترقی کمیشن نے مسترد کردی تھی۔

بار اور بینچ میں آج سے قبل اتنی دوریاں کبھی نہ تھیں، اٹارنی جنرل

فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل فار پاکستان خالد جاوید خان نے کہا کہ اس ریفرنس کا مقصد گزشتہ سال کی کارکردگی اور نئے سال کی منزل کا تعین کرنا ہے۔

جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی پر اتفاق نہ ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں خاتون جج کی کمی آدھی آبادی کو نمائندگی سے محروم رکھے گی۔

مزید پڑھیں: جسٹس عائشہ کی سپریم کورٹ میں ترقی پر وکلا کا 9 ستمبر کو احتجاج کا اعلان

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ گزشتہ عدالتی سال کے دو فیصلے اہم رہے ایک فیصلے کی وجہ سے بہت سے لوگ بے روزگار ہوئے جبکہ دوسرے فیصلے نے ظاہر کیا کہ خواتین کی ہراسانی سے متعلق اعلیٰ عدلیہ کتنی بے بس تھی۔

انہوں نے کہا کہ آج سے قبل بینچ اور بار کے درمیان اتنی دوریاں کبھی نہ تھیں، سپریم کورٹ میں سینیارٹی کی بنیاد پر ججز کی تعیناتی کا مسئلہ تعلقات میں بگاڑ کی وجہ بن گیا ہے، ججز کی تعیناتی میں شفافیت سے پسند اور ناپسند کے عنصر کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جسٹس وقار سیٹھ اور سندھ ہائی کورٹ بار کی زیر التوا درخواستیں جلد نمٹا کر شکوک و شبہات کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت ججز کے تقرر سمیت عدلیہ کے تمام مسائل کے حل کے لیے ہر وقت تیار ہے۔

سابق آمر کا مقدمہ آج تک سماعت کیلئے مقرر نہیں کیا گیا، رکن بار کونسل

ان کے علاوہ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کی بیماری کے باعث رکن بار کونسل امجد شاہ نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک کا عدالتی نظام بالخصوص ماتحت عدلیہ میں شفاف اور فوری انصاف کی فراہمی اطمینان بخش نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بار کونسل کی جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی کی مخالفت

ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمی میں کئی اہم مقدمات زیر التوا ہیں جن کی اب تک ایک بھی سماعت نہیں ہوئی۔

رکن پی بی سی کا کہنا تھا کہ یہ بات قابل ستائش ہے کہ عدالتوں نے سابق وزیراعظم کے مقدمات کی جلد شنوائی کر کے جلد فیصلے کیے تاہم دو مرتبہ آئین کو پامال کرنے والے آمر کا مقدمہ آج تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔

امجد شاہ کا مزید کہنا تھا کہ ہماری عدلیہ مختلف ادوار میں نشیب و فراز سے گزری ہے. منتخب وزرائے اعظم کبھی پھانسی، کبھی توہین عدالت کی تلوار سے کچل دیے جاتے ہیں، اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں