نورمقدم قتل کیس: ہماری پولیس کو تفتیش کے دوران کڑیاں ملانا نہیں آتیں، جسٹس عامر فاروق

اپ ڈیٹ 17 ستمبر 2021
جسٹس عامر فاروق نے ذاکر جعفر اور عصمت جعفر کی درخواست ضمانت پر سماعت کی—فائل فوٹو: ڈان نیوز
جسٹس عامر فاروق نے ذاکر جعفر اور عصمت جعفر کی درخواست ضمانت پر سماعت کی—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائیکورٹ میں نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت سے متعلق درخواست پر خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے مدعی مقدمہ وکیل کے دلائل طلب کرلیے۔

جسٹس عامر فاروق نے ذاکر جعفر اور عصمت جعفر کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: نور مقدم کیس: ڈی این اے، فنگر پرنٹس قتل میں ظاہر جعفر کی شمولیت ظاہر کرتے ہیں، پولیس

خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے اور تیسرے روز اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس بہت پیچیدہ نہیں تھا۔

دوران سماعت جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہماری پولیس کو تفتیش کے دوران کڑیاں ملانا نہیں آتیں، اس کیس سے ہٹ کر بات کی جائے تو ایک تاثر یہ بھی ہے کہ ٹرائل میں تاخیر سے ملزم کو ضمانت نہ ملے۔

جسٹس عامر فاروق نے مزید ریمارکس دیے کہ ضمانت نہ ملنے پر ملزم کم از کم جیل میں یہ سزا تو کاٹے۔

اس دوران خواجہ حارث نے کہا کہ کیس تیار کرنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے وہ ججمنٹس پڑھیں جو آپ کے خلاف جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اعترافی بیان اور کال ڈیٹا ریکارڈ کے بارے میں عدالت کو بتانا چاہتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم کیس: ملزم ظاہر جعفر کو 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا

جس کے بعد خواجہ حارث نے ظاہر جعفر کا پولیس کے سامنے اعترافی بیان پڑھ کر سنایا۔

انہوں نے ظاہر جعفر کا بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا کہ نور مقدم نے شادی سے انکار کیا تو تلخی اور لڑائی ہو گئی جس پر نور مقدم نے دھمکی دی کہ پولیس کیس کرکے ذلیل کراؤں گی۔

ظاہر جعفر کے بیان کے مطابق انہوں نے والد کو فون کر کے بتایا کہ نور مقدم کو ختم کر کے اس سے جان چھڑا رہا ہوں۔

خواجہ حارث نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ یہ جملہ ظاہر جعفر کے ابتدائی بیان میں شامل نہیں ہے، ابتدائی اعترافی بیان کے مطابق ظاہر جعفر نے قتل کے بعد گھر والوں کو واردات سے آگاہ کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات ٹرائل کے دوران شہادت میں ثابت ہو گی کہ کون سا بیان درست ہے جبکہ پولیس کی تحویل میں ریکارڈ کرائے گئے ملزم کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ملزم کا بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرانا ضروری ہے۔

مزید پڑھیں: پولیس کا نور مقدم کیس کی تفصیلات منظرِ عام پر نہ لانے کا اعلان

اس دوران خواجہ حارث نے ملزم کے بیان کی قانونی حیثیت سے متعلق عدالتی فیصلوں کے حوالہ جات بھی پیش کیے۔

دوران سماعت جسٹس عامر فاروق نے ریماکس دیے کہ دنیا بدل رہی ہے اس لیے قانون کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ پروسیکیوشن یا ہم ٹرائل کے دوران اس متعلق کوئی شہادت پیش کریں کیونکہ کال ڈیٹا ریکارڈ میں صرف ظاہر جعفر کی والدین کو کالز کا ریکارڈ دیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ظاہر جعفر نے اپنے والد کو کال پر کیا کہا؟ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا، ابھی تک فون پر چیت کا کوئی ٹرانسکرپٹ سامنے نہیں آیا۔

جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کال پر بات چیت کا ٹرانسکرپٹ تو تب ہو گا جب کال ریکارڈ ہوئی ہو گی۔

خواجہ حارث نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا کہ جرم میں اعانت بھی دانستہ اور منصوبہ بندی کے تحت ہوتی ہے اور اگر والد کو قتل کا علم تھا اور پولیس کو بتانے سے قتل رک سکتا تھا تب بھی یہ اعانت جرم نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس صورت میں بھی اعانت جرم نہیں بلکہ قانون کی الگ دفعات کا اطلاق ہو گا۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ امریکا میں تو ٹرائل کو ٹیلی وائز بھی کیا جاتا ہے جبکہ ٹیلی وائز کرنے کے حوالے سے ہمارے ہاں ابھی رولز بننے ہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ سال ڈیڑھ سال پہلے ہمارے ہاں قتل ہو جائے تو دہشت گردی کی دفعات لگا دیتے تھے، سپریم کورٹ نے تشریح کی تو اب یہ عمل رک گیا ہے۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ کچھ ہو جائے تو سڑک پر ہی حساب برابر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

عدالت نے خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے کے بعد شاہ خاور کو 21 ستمبر کو دلائل پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

اس پر ایڈووکیٹ شاہ خاور نے کہا کہ میں ایک گھنٹے سے کچھ زائد وقت لوں گا۔

جسٹس عامر فاروق کا خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا آپ جوابی دلائل بھی دینا چاہیں گے؟

جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں دلائل کے بعد جوابی دلائل بھی دینا چاہوں گا۔

خیال رہے کہ 11 ستمبر کو اسلام آباد پولیس کی جانب سے ٹرائل کورٹ میں جمع کروائی گئی تفتیشی رپورٹ میں کہا گیا تھا مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔

چالان میں کہا گیا تھا کہ 18 جولائی کو نور سیکٹر ایف-7/4 میں ظاہر جعفر کے گھر پہنچیں اور سیکیورٹی گارڈ نے انہیں اندر داخل ہونے دیا جبکہ ایک پالتو کتے نے بھی ان سے مانوسیت کا اظہار کیا۔

یاد رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی اور مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت قتل کے الزام میں درج اس مقدمے کے تحت ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں