عدالت کو سیاسی نظام کی تبدیلی کا حکم دینے کا اختیار نہیں، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 27 ستمبر 2021
عدالت نے صدارتی نظام سے متعلق درخواستوں پر رجسٹرار کا اعتراض برقرار رکھا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت نے صدارتی نظام سے متعلق درخواستوں پر رجسٹرار کا اعتراض برقرار رکھا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے سے متعلق درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ آئین میں عدالت کو ایسا کوئی اختیار حاصل نہیں کہ سیاسی نظام کی تبدیلی کا حکم دے۔

جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے احمد رضا قصوری کی صدارتی نظام رائج کرنے سے متعلق درخواستوں پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کیا درخواست گزار اس معاملے میں متعلقہ ہیں بھی کہ نہیں اور کیا یہ درخواستیں بنیادی انسانی حقوق سے متعلق کوئی ٹھوس بات کرتی بھی ہیں کہ نہیں؟

یہ بھی پڑھیں:صدارتی نظام پر ریفرنڈم کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست

بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید ریمارکس دیے کہ عدالت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ ملک میں طاقتور سیاسی جماعتیں موجود ہیں ان کی موجودگی میں درخواست گزار کو یہ ضرورت کیوں پیش آئی۔

جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ سیاستدان اگر ملک کے مفاد اور فلاح کا نہیں سوچتے تو کیا میں بھی خاموش ہو جاؤں؟

درخواست گزار نے مزید کہا کہ جن لوگوں نے آئین پاکستان بنایا ان میں واحد زندہ شخص میں اس وقت ملک میں موجود ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آئین کی دفعہ 46 کے تحت وزیراعظم ریفرنڈم کے لیے معاملہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے سامنے رکھتے ہیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا یہ معاملہ ابھی تک وزیراعظم یا پارلیمان کے سامنے آیا بھی ہے کہ نہیں، کیا صدارتی نظام رائج کرنے کے لیے صرف فرد واحد کی خواہش چاہیے؟

مزید پڑھیں: ایوان ایک قرار داد منظور کر کے صدارتی نظام کو ہمیشہ کیلئے دفن کردے، شاہد خاقان

جس پر احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ میں فرد واحد نہیں بلکہ ایک ادارہ ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے احمد رضا قصوری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب آئین بن رہا تھا اور آپ رکن پارلیمنٹ تھے اس وقت آپ نے پارلیمانی نظام حکومت کی مخالفت کیوں نہیں کی؟

جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ میں نے تو اس وقت بھی آئین کے دستاویز کی مخالفت کی تھی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تو پھر آپ خود کو کیسے آئین بنانے والوں میں شمار کر رہے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آپ کی درخواست میں سیاسی سوال ہے جو عدالت سے متعلقہ نہیں۔

مزید پڑھیں: صدارتی نظامِ حکومت کی تشکیل کے لیے سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست

احمد رضا قصوری نے کہا کہ انہوں نے ملک کو 1971 میں دولخت ہوتے دیکھا ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو غیر متعلقہ معاملات میں مت اُلجھائیں۔

عدالت نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے صدارتی نظام کے خلاف درخواستیں ناقابل سماعت قرار دے دیں۔

عدالت عظمیٰ نے واضح کیا ہے کہ آئین کی بنیاد پارلیمانی نظام ہے، آئین میں عدالت کو ایسا کوئی اختیار حاصل نہیں کہ سیاسی نظام کی تبدیلی کا حکم دے۔

تبصرے (0) بند ہیں