افغان جنگ کے نتائج کے لیے پاکستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے، وزیر اعظم

اپ ڈیٹ 27 ستمبر 2021
افغانستان میں ایک اور پرتشدد تنازع کو روکنے کے لیے مستقبل کی جانب دیکھنا چاہیے، عمران خان - فائل فوٹو:اے پی
افغانستان میں ایک اور پرتشدد تنازع کو روکنے کے لیے مستقبل کی جانب دیکھنا چاہیے، عمران خان - فائل فوٹو:اے پی

وزیراعظم عمران خان نے الزام تراشی کے کھیل کو جاری رکھنے کے بجائے ایک اور تنازع سے بچنے کے لیے مستقبل پر نظریں جمانے پر زور دیا اور کہا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کی جنگ کے نتائج اور امریکا کے نقصانات کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔

امریکی اخبار 'دی واشنگٹن پوسٹ' میں شائع ہونے والے ایک کالم میں وزیراعظم نے لکھا کہ 'اب ہمیں افغانستان میں ایک اور پرتشدد تنازع کو روکنے کے لیے مستقبل کی جانب دیکھنا چاہیے'۔

وزیر اعظم عمران خان نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو 'یقیناً اس بات کا مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ 3 لاکھ سے زائد تربیت یافتہ اور بہترین اسلحہ سے لیس افغان سیکیورٹی فورسز کو کم مسلح طالبان سے نہ لڑنے کی کوئی وجہ نہیں دکھی'۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ ایک افغان حکومت کا اسٹرکچر تھا جو افغانوں کی نظر میں جائز نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: امریکی صحافی گلین بیک افغانستان سے انخلا میں مدد کرنے پر وزیراعظم عمران خان کے معترف

ان کا کہنا تھا کہ 'افغانستان کے بارے میں کانگریس کی حالیہ سماعتوں کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی اتحادی کی حیثیت سے پاکستان کی قربانیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا بلکہ اس کے بجائے ہمیں امریکا کے نقصان کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا'۔

وزیر اعظم نے کہا کہ 'میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ 2001 کے بعد سے میں نے متعدد مرتبہ خبردار کیا کہ افغان جنگ، ان کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ناقابل فتح ہے، افغان کبھی بھی غیر ملکی عسکری موجودگی کو قبول نہیں کریں گے اور پاکستان سمیت کوئی بھی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا'۔

انہوں نے کہا کہ 'بدقسمتی سے نائن الیون کے بعد آنے والی پاکستانی حکومتوں نے غلطیوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے امریکا کو خوش کرنے کی کوشش کی اور پاکستان کے فوجی آمر پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد فوجی مدد کے ہر امریکی مطالبے پر اتفاق کیا جس کی قیمت پاکستان اور امریکا کو بہت زیادہ اٹھانا پڑی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ان گروپس کو نشانہ بنانے کا کہا گیا جنہیں سی آئی اے اور ہماری خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے مشترکہ طور پر تربیت دی تھی تاکہ 1980 میں افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دے سکیں، اس وقت ان افغانوں کو ایک مقدس فریضہ انجام دینے والے آزادی پسندوں کے طور پر سراہا گیا تھا اور سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن نے وائٹ ہاؤس میں مجاہدین کی میزبانی بھی کی تھی'۔

یہ بھی پڑھیں: افغان انخلا کے دوران نیٹو اور اس سے متعلقہ 10ہزار سے زائد افراد پاکستان آئے، وفاقی وزیر اطلاعات

عمران خان کا کہنا تھا کہ 'ایک مرتبہ جب سوویت یونین کو شکست دے دی گئی تو امریکا نے افغانستان کو چھوڑ دیا اور پاکستان میں 40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پیچھے رہ گئے جبکہ افغانستان میں ایک خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا، اس سیکیورٹی خلا سے طالبان ابھرے جن میں سے بہت سے پاکستان میں افغان مہاجر کیمپوں میں پیدا ہوئے اور تعلیم حاصل کی'۔

انہوں نے کہا کہ 'نائن الیون کے بعد امریکا کو ہماری دوبارہ ضرورت پڑی مگر اس مرتبہ ان کے خلاف جنہیں ہم نے مشترکہ طور پر غیر ملکی قبضے سے لڑنے کے لیے سپورٹ کیا تھا تو پرویز مشرف نے واشنگٹن کو لاجسٹکس اور ہوائی اڈوں کی پیشکش کی، پاکستان میں سی آئی اے کو اجازت دی اور یہاں تک کہ ہماری سرزمین پر پاکستانیوں پر بمباری کرنے والے امریکی ڈرونز سے بھی آنکھیں بند کر لیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پہلی مرتبہ ہماری فوج پاک افغان سرحد پر نیم خودمختار قبائلی علاقوں میں گھسے جو پہلے سوویت مخالف جہاد کے اسٹریٹجنگ گراؤنڈ کے طور پر استعمال ہوتا رہا تھا، ان علاقوں کے آزاد پشتون قبائل کے طالبان اور دیگر اسلام پسند عسکریت پسندوں کے ساتھ گہرے تعلقات تھے'۔

وزیر اعظم نے کہا کہ 'ان لوگوں کے لیے امریکا بھی سوویت یونین کی طرح افغانستان کا ایک 'قابض' تھا جو اسی سلوک کا مستحق تھا اور چونکہ پاکستان، اب امریکا کا ساتھی تھا، ہم بھی مجرم سمجھے گئے اور ہم پر بھی حملہ کیا گیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کے بعد ہماری سرزمین پر 450 سے زائد امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہوگئی جس سے ہم تاریخ کے واحد ملک بن گئے جس پر کسی اتحادی نے بمباری کی'۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے انخلا میں سہولت کاری پر یورپی کونسل کے سربراہ پاکستان کے شکر گزار

انہوں نے کہا کہ 'ان حملوں سے بے پناہ شہری ہلاکتیں ہوئیں جس سے امریکا مخالف اور پاکستانی فوج مخالف جذبات میں اضافہ ہوا'۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ '2006 اور 2015 کے درمیان تقریباً 50 عسکریت پسند گروہوں نے پاکستان کی ریاست کے خلاف جہاد کا اعلان کیا، ہم پر 16 ہزار سے زائد دہشت گرد حملے کیے گئے، ہمیں 80 ہزار سے زائد جانی نقصان اٹھانا پڑا اور معیشت میں 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس تنازع نے ہمارے 35 لاکھ شہریوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا، پاکستان کے انسداد دہشت گردی کی کارروائی سے فرار ہونے والے عسکریت پسند افغانستان میں داخل ہوئے اور پھر بھارتی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد اور مالی اعانت سے ہمارے خلاف مزید حملے کیے'۔

انہوں نے کہا کہ 'پاکستان کو اپنی بقا کی جنگ لڑنی پڑی اس کے باوجود امریکا ہم سے افغانستان کی جنگ کے لیے مزید کام کرنے کو کہتا رہا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس سے ایک سال قبل 2008 میں، میں اس وقت جو بائیڈن، جان ایف کیری اور ہیری ایم ریڈ سمیت دیگر سے ملا اور انہیں افغانستان میں فوجی مہم جاری نہ رکھنے پر زور دیا تھا'۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 'اس کے باوجود نائن الیون کے بعد اسلام آباد میں سیاسی فوائد غالب رہے اور میرے ملک کی قیادت کرنے والے سب سے کرپٹ شخص آصف زرداری نے امریکیوں سے کہا کہ وہ پاکستانیوں کو نشانہ بناتے رہیں کیونکہ 'جانی نقصان آپ امریکیوں کو پریشان کرتا ہے، مجھے نہیں'، ہمارے اگلے وزیراعظم نواز شریف کا نظریہ بھی اس سے مختلف نہیں تھا'۔

مزید پڑھیں: دنیا افغانستان کے مشکل وقت میں پاکستان کے کردار کی معترف ہے، وزیر خارجہ

ان کا کہنا تھا کہ 'جہاں پاکستان نے 2016 تک زیادہ تر دہشت گردوں کو شکست دے دی تھی، افغان صورتحال بدستور خراب ہوتے چلی گئی جیسا کہ ہم نے خبردار کیا تھا، یہ فرق کیوں؟ پاکستان کے پاس ایک باوقار فوج اور خفیہ ایجنسی ہے، دونوں کو عوامی حمایت حاصل ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'افسوسناک بات یہ ہے کہ اس حقیقت کا سامنا کرنے کے بجائے افغان اور مغربی حکومتوں نے پاکستان پر الزام لگا کر ایک آسان قربانی کا بکرا بنایا، ہم پر غلط الزام لگایا کہ ہم نے طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں اور ہماری سرحد کے پار اس کی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہے'۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوتا تو کیا امریکا 450 سے زائد ڈرون حملوں میں سے کچھ کا استعمال ان مبینہ پناہ گاہوں کو نشانہ بنانے کے لیے نہ کرتا؟

انہوں نے بتایا کہ پھر بھی کابل کو مطمئن کرنے کے لیے پاکستان نے مشترکہ بارڈر ویزبیلٹی میکانزم کی پیشکش کی، بائیومیٹرک بارڈر کنٹرول کی تجویز دی، بارڈر پر باڑ لگانے کی وکالت کی (جو اب ہم نے بڑی حد تک مکمل کرلی ہے) اور دیگر اقدامات اٹھائے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان فوج اور اشرف غنی حکومت کے خاتمے کی شرمندگی سے بچتے ہوئے زیادہ حقیقت پسندانہ طریقہ یہ تھا کہ طالبان سے بہت پہلے بات چیت کی جاتی۔

تبصرے (0) بند ہیں