جنگی جرائم کی تحقیقات: 'توجہ امریکا کے بجائے طالبان اور داعش پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں'

اپ ڈیٹ 27 ستمبر 2021
بین الاقوامی فوجداری عدالت نے کہا کہ محدود وسائل کی وجہ سے وہ اب اپنی توجہ افغانستان میں تک محدود رکھیں گے— فوٹو: اے پی
بین الاقوامی فوجداری عدالت نے کہا کہ محدود وسائل کی وجہ سے وہ اب اپنی توجہ افغانستان میں تک محدود رکھیں گے— فوٹو: اے پی

بین الاقوامی فوجداری عدالت کے نئے چیف پراسیکیوٹر نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں جنگی جرائم کے حوالے سے اپنی تحقیقات امریکا کے بجائے طالبان اور داعش پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق پیر کو اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ درخواست عدالت کے ججوں کو افغانستان میں حالیہ پیشرفت کی روشنی میں کی گئی ہے کیونکہ گزشتہ ماہ طالبان نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔

مزید پڑھیں: افغان جنگ کے نتائج کے لیے پاکستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے، وزیر اعظم

عالمی فوجداری عدالت نے افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم کی تلاش میں پہلے ہی 15 سال صرف کر چکی ہے اور گزشتہ سال انہوں نے اس سلسلے میں مکمل تحقیقات شروع کی تھیں، افغان حکومت نے گزشتہ سال یہ کہ کر تحقیقات رکوا دی تھیں کہ وہ خود تحقیقات کررہے ہیں۔

ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف صرف اس صورت میں مداخلت کرتی ہے جب کوئی رکن ملک جنگی جرائم، انسانیت سوز جرائم یا نسل کشی پر مقدمہ چلانے سے قاصر یا انکاری ہو۔

نئے پراسیکیوٹر کریم خان نے ایک بیان میں کہا کہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ افغان حکومت کا خاتمہ اور طالبان کی جانب سے ان کی جگہ لینا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ حالات میں نمایاں تبدیلی آ چکی ہے۔

افغانستان کے جنگی جرائم کی تحقیقات میں مبینہ طور پر امریکی شمولیت نے امریکی حکومت کو مشتعل کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کی بین الاقوامی ایئرلائنز سے افغانستان کیلئے پروازیں بحال کرنے کی اپیل

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس معاملے پر کریم خان کے پیشرو فتوبینسودا پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

کریم خان نے کہا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے محدود وسائل کی وجہ سے وہ اب اپنی توجہ افغانستان تک محدود رکھیں گے کیونکہ عالمی عدالت دنیا بھر میں مختلف حالات کی تحقیقات کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے میں نے افغانستان میں اپنے دفتر کی تحقیقات کو مبینہ طور پر طالبان اور داعش کے جرائم پر مرکوز رکھتے ہوئے تفتیش کے دیگر پہلوؤں کو ترجیح نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان اور داعش کی جانب سے کیے گئے مبینہ جرائم کی نوعیت اور یہ جس سطح پر انجام دیے گئے اس کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے اور ہم قابل اعتماد مقدمات بنانا چاہتے ہیں جن کو کسی شک و شبے سے بالاتر ہو کر عدالت میں ثابت کیا جا سکے۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر نے خصوصاً 26 اگست کو کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے مہلک حملے کا ذکر کیا جس کی ذمے داعش نے قبول کی تھی اور حملے میں 13 امریکی فوجی اہلکار اور 100 سے زائد افغان شہری مارے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: طالبان حکومت، افغان معاشرے کے تمام گروہوں کی عکاسی نہیں کرتی، روس

انہوں نے کہا کہ تفتیش کے جن پہلوؤں پر توجہ نہیں دی گئی، میرا دفتر ان ثبوتوں کی حفاظت کی ذمہ داریوں کو ادا کرتا رہے گا۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت کا قیام 2002 میں دنیا کے ان ممالک میں بدترین جرائم کی تحقیقات کے لیے کیا گیا تھا جہاں رکن ممالک یا تو خود ایسے جرائم کی تفتیش سے قاصر تھے یا ان کے لیے تیار نہیں تھے۔

سابق پراسیکیوٹر بینسودا نے عالمی عدالت کے ججوں سے کہا تھا کہ وہ 2017 میں افغانستان میں باضابطہ تحقیقات کی منظوری دیں اور اپیل ججوں نے مارچ 2020 میں تحقیقات کی اجازت دے دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں