امریکا کو طالبان کی حکومت جلد یا بدیر تسلیم کرنی ہوگی، وزیر اعظم

اپ ڈیٹ 02 اکتوبر 2021
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم سب مل کر ایک مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیتے ہیں تو اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے— فوٹو: اسکرین شاٹ
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم سب مل کر ایک مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیتے ہیں تو اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے— فوٹو: اسکرین شاٹ

وزیر اعظم عمران خان نے سقوطِ کابل کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر طالبان کو فوری طور پر عالمی امداد فراہم نہیں کی گئی تو خطرہ ہے کہ وہاں تشکیل پانے والی عبوری حکومت گر جائے گی جس کے نتیجے میں افراتفری پیدا ہوگی اور انسانی بحران جنم لے گا جبکہ امریکا کو طالبان کی حکومت جلد یا بدیر تسلیم کرنی ہوگی۔

وزیر اعظم نے ترک نشریاتی ادارے 'ٹی آر ٹی ورلڈ' کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ اب افغانستان کا مسئلہ لٹکنا دراصل انسانی بحران کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ افغان حکومت اپنے بجٹ کے لیے 75 فیصد تک بیرونی امداد پر انحصار کرتی تھی۔

مزید پڑھیں: مفاہمتی عمل کے تحت تحریک طالبان پاکستان سے ہتھیار ڈالنے کے لیے بات کررہے ہیں، عمران خان

انہوں نے کہا کہ افغان عوام کو خطرہ ہے کہ طالبان کے بعد بیرونی امداد کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ طویل مدت کے لیے تو شاید طالبان اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں گے لیکن اگر انہیں فوری طور پر امداد فراہم نہیں کی گئی تو خطرہ ہے کہ وہاں تشکیل پانے والی عبوری حکومت گر جائے گی جس کے نتیجے میں افراتفری پیدا ہوگی اور انسانی بحران جنم لے گا۔

'پاکستان نے تنہا طالبان کو قبول کیا تو فرق نہیں پڑے گا'

طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ہماری افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک سے مشاورت جاری ہے کہ ان کی حکومت کو کب تسلیم کیا جائے؟

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان نے تنہا طالبان کو قبول کیا تو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا اس لیے ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ امریکا، یورپ، چین اور روس بھی ان کی حکومت کو تسلیم کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم سب مل کر ایک مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیتے ہیں تو اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

’امریکا صدمے اور تذبذب کا شکار ہے‘

دوران انٹرویو وزیر اعظم عمران خان نے سوال اٹھایا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکا طالبان کی حکومت کو کب تسلیم کرے گا؟

یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی آئینِ پاکستان کے تحت چلنا چاہے تو عام معافی کا سوچ سکتے ہیں، صدر مملکت

انہوں نے کہا کہ جلد یا بدیر امریکا کو طالبان کی حکومت تسلیم کرنی ہوگی، ان کے سینیٹ میں جو سماعت ہوئی، ان کے میڈیا میں دیکھیں، امریکا صدمے اور تذبذب کا شکار ہے۔

’امریکا قربانی کا بکرا ڈھونڈ رہا ہے‘

وزیر اعظم نے کہا کہ امریکا 20 سال کے بعد طالبان کی حکومت کے آنے سے شدید حیرت کا شکار ہے اور اب وہ قربانی کا بکرا ڈھونڈ رہا ہے جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن کو تنقید کا نشانہ بنانا افسوس کی بات ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن کیا کرسکتے تھے، انخلا کی تاریخ جب بھی دی گئی ہوتی ایسا ہی ہوتا جیسا آپ نے سقوطِ کابل میں دیکھا۔

انہوں نے کہا کہ امریکا اب قربانی کا بکرا تلاش کر رہا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان ان میں سے ایک ہے، واشنگٹن منطقی ذہنیت سے نہیں سوچ رہا کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ اگر امریکا، افغانستان کے اثاثے غیر منجمد نہیں کرتا اور افغان حکومت گر جاتی ہے تو نتائج انتہائی سنگین ہوں گے، اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں آئندہ برس تک عوام 90 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے اس لیے امریکا کو مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔

’امریکی عوام کو افغانستان کی اصل صورتحال سے بے خبر رکھا گیا‘

بعض امریکی سینیٹرز کی جانب سے پاکستان پر پابندیاں لگانے کی تجویز سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ جو کوئی افغانستان بشمول خطے کی تاریخ سے واقف ہے، ہم سب جانتے تھے کہ ایسا ہی ہوگا، ہمیں علم تھا کہ آخر کار مسئلہ جنگ سے حل نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں لوگ غیر ملکی طاقتوں کو تسلیم نہیں کرتے، خاص طور پر اگر وہ مسلمان نہ ہو تو ان کی قبولیت کا کوئی امکان نہیں ہوتا، افغانستان میں نصف سے زیادہ پشتون ہیں اور ان کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اگر ان کا کوئی عزیز قتل ہوجائے تو وہ اس کا بدلہ لیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے افغانستان میں صورتحال بہت خراب کردی ہے، عمران خان

عمران خان نے کہا کہ جب ہم نے امریکا کا اتحادی ہونے کا فیصلہ کیا اور کیونکہ طالبان پشتون تھے تو طالبان کے ساتھ ہمدردیاں ان کے مذہبی نظریات کی وجہ سے نہیں تھیں بلکہ ان کی پشتون قومیت کی وجہ سے تھیں، سرحد کی اِس جانب پہلی مرتبہ ہم نے پاکستانی طالبان دیکھے، انہوں نے ہمیں امریکیوں کا ساتھی تصور کیا اور ہم پر حملے شروع کر دیے، امریکا نے جتنے حملے کیے طالبان کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 2008 میں امریکی تھنک ٹینک سمیت متعدد سینیٹرز سے ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ امریکی عوام کو افغانستان کی صورتحال کے بارے میں مکمل طور پر بےخبر رکھا گیا، وہ سمجھتے تھے کہ افغان میں جمہوری حکومت قائم ہوگی، افغان خواتین کو آزادی مل جائے گی لیکن سقوطِ کابل کے بعد پورا امریکا پریشان ہوگیا۔

’امریکی انخلا پر افغان آرمی کی پسپائی سے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا‘

ان کا کہنا تھا کہ 2010 میں آرمی چیف نے امریکا کا دورہ کیا اور انہیں آگاہ کیا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل جنگ نہیں ہے اور جیسے ہی وہ افغانستان سے انخلا کریں گے افغان حکومت اور آرمی گر جائے گی۔

عمران خان کو ’طالبان خان ‘ کہنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ یہ جارج بش کی حکومت میں ان کے سامراجی رویے کا عکاس ہے، یہ ان کا بدترین تکبر تھا، جب انہوں نے ہم سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا مخالف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں جنگی حل کا مخالف ہوں، میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ دنیا کے مسائل کا حل جنگی ذرائع ہیں، میں عراق جنگ کا مخالف تھا، امریکا نے ہمیں افغانستان جنگ میں قربانی کا بکرا بنایا اور ہماری خدمات کو تسلیم کرنے کے بجائے مسلسل تنقید کی جو ہمارے لیے سب سے تکلیف دہ امر تھا۔

’کابل میں طالبان کی آمد پاکستان کی وجہ سے نہیں تھی‘

وزیر اعظم نے واضح کیا کہ میرا خیال ہے کہ جب امریکا کھلے ذہن کے ساتھ سوچے گا تو اسے اندازہ ہوگا کہ پاکستان اس سب کے لیے کیسے ذمہ دار ہوسکتا ہے، یہ کیسے ہوا کہ بہترین اسلحے سے لیس 3 لاکھ افغان فوج نے لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیے، یہ پاکستان کی وجہ سے نہیں تھا۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ صورتحال کا تجزیہ کریں تو نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے لیکن پاکستان اس کا ذمہ دار نہیں ہوسکتا، طالبان کی تحریک دیہی علاقوں میں شہرت پاگئی یہی وجہ ہے کہ وہ کامیاب ہوگئے۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں پنج شیر معاملے کے پرامن حل کے خواہاں ہیں، وزیراعظم

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب ہم شمولیتی حکومت کی بات کرتے ہیں تو پہلی بات یہ کہ افغانستان کے خیر خواہ کی حیثیت سے ہم چاہیں گے کہ وہ مستحکم ہوں اور ایک شمولیتی حکومت قائم ہو۔

انہوں نے کہا کہ شمولیتی حکومت کے بارے میں طالبان پر مسلط نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ مداخلت ہوگی، اور اگر طالبان کو چند لوگوں کو منتخب کرنے کا مشورہ دیا گیا تو وہ اس کی مخالفت کریں گے، امریکا بشمول پاکستان ان پر اپنی رائے مسلط نہیں کرسکتا۔

’امریکا سے مسلسل رابطے میں ہیں‘

امریکا اور پاکستان کے تعلقات سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم ان سے مسلسل رابطے میں ہیں جبکہ ہماری انٹیلی جنس کے سربراہ اپنے امریکی ہم منصبوں سے رابطے میں ہیں۔

امریکی صدر نے اب تک آپ کو کال نہیں کی؟ کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ جو بائیڈن نے کال نہیں کی لیکن ایسا ہونا بھی نہیں ہے، آپ جانتے ہیں ایسا کیوں ہے، یہ بہت ضروری بھی نہیں ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ امریکی صدر اس وقت شدید دباؤ میں ہیں، پریشان کن صورتحال کی وجہ سے ان کو تنیقد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'امریکیوں کی ایک اور نسل کو جنگ کیلئے افغانستان نہیں بھیجوں گا'

انہوں نے کہا کہ میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ جو بائیڈن کیسے پیش گوئی کرسکتے ہیں کہ انخلا سے دو ہفتے قبل ملک کا صدر بھاگ جائے گا، پاکستان، امریکا اور طالبان بھی ایسی پیش گوئی نہیں کرسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں افغانستان کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ امریکا اپنا کردار ادا کرے، اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو 1979 کی تاریخ دہرائی جائے گی جب سوویت یونین وہاں سے چلا گیا تھا۔

بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے فورم سمیت بین الاقوامی میڈیا پر اٹھایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو یکساں طور پر تمام معاملات کو دیکھنا چاہے، اگر وہ افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو دیکھتے ہیں تو بلاامتیاز بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں بھی مسلمانوں سمیت اقلیتی برادری پر ہونے والے مظالم پر بھی بات کرنی چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں