کالعدم ٹی ٹی پی سے یکطرفہ مذاکرات پر حکومت تنقید کی زد میں

اپ ڈیٹ 04 اکتوبر 2021
اپوزیشن نے کالعدم دہشت گرد تنظیم کے ساتھ رابطوں کی شرائط پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا ہے— فوٹو: ڈان نیوز/فیس بک
اپوزیشن نے کالعدم دہشت گرد تنظیم کے ساتھ رابطوں کی شرائط پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا ہے— فوٹو: ڈان نیوز/فیس بک

وزیر اعظم عمران خان کے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو معافی دینے کے ’یکطرفہ‘ فیصلے اور اس معاملے پر کابینہ کے اراکین کے 'متضاد' بیانات کو مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے دہشت گرد تنظیم کے ساتھ رابطوں کی شرائط پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کو خفیہ رکھنے کے حکومتی اقدام پر تشویش کا اظہار کیا۔

پی پی پی کی سینیٹ میں پارلیمانی رہنما اور نائب صدر شیری رحمٰن نے سوال اٹھایا کہ یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ (وزیر اعظم) جنہیں 'اچھے طالبان' کہتے ہیں ان کے ساتھ کیا سیاسی حل نکالنا چاہتے ہیں، کیوں کہ دہشت گردوں سے لڑائی میں شہریوں اور فوجیوں کی بڑے پیمانے پر قربانیوں سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مفاہمتی عمل کے تحت تحریک طالبان پاکستان سے ہتھیار ڈالنے کے لیے بات کررہے ہیں، عمران خان

ان کا مزید کہنا تھا کہ خارجہ اور سیکیورٹی کی پالیسی، جو قومی یکجہتی کی بنیاد کا کام کرتی تھی، اب باقاعدگی سے کابینہ کے اراکین کی جانب سے یکطرفہ اور متصادم اعلانات کا نشانہ بنی رہتی ہے جس نے ملک کو اندرون ملک سوالات اور بین الاقوامی فورمز پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

شیری رحمٰن، جو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ کی چیئرپرسن بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ ایک وزیر کہتے ہیں کہ کالعدم ٹی ٹی ٹی، پاکستان کے خلاف بھارت میں پروان چڑھنے والے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں ہیں تو دوسرے کہتے ہیں کہ اگر پر تشدد کارروائیاں ترک کردیں تو انہیں غیر مسلح اور دوبارہ آباد کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے خود پاکستان کی پالیسی میں ٹی ٹی پی کے حوالے سے تبدیلی کا انکشاف پارلیمنٹ کے بجائے غیر ملکی ٹی وی چینل پر کیا۔

مزید پڑھیں: ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق وزیراعظم کے بیان پر صحافیوں، سیاست دانوں کی تنقید

شیری رحمٰن کا بیان، وزیر داخلہ شیخ رشید کے اس بیان کے ایک روز بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے ٹی ٹی پی کو عام معافی دینے کے حکومتی اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پیش کش صرف ’اچھے طالبان‘ کے لیے تھی اور اس سلسلے میں اعلیٰ سطح پر بات چیت ہو رہی ہے۔

رہنما پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے خطرات نہ صرف خطے کی ہنگامہ خیزی اور عالمی سطح پر تبدیلیوں سے پیدا نہیں ہوتے جو چیلنج بنتے ہیں بلکہ یہ خطرات موجودہ حکومت کی جانب سے پالیسی سازی کو جمہوری بنانے سے انکار اور ملک کے لیے بڑھتے ہوئے چیلنجز کے وقت پارلیمنٹ میں اتحاد پیدا کرنے میں ناکامی سے بھی پیدا ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سوائے ایک چھوٹے سے طبقے کے کوئی نہیں جانتا کہ کسی بھی ملک کے ساتھ رابطوں کی کیا شرائط بنائی جارہی ہیں جو پاکستان کو متاثر کرتی ہیں۔

پی پی پی کی سینیٹر کا مؤقف تھا کہ اگر جیو اسٹریٹجک صف بندی اور ان کی سیاست اب پاکستان کی جانب کثیرالجہتی پالیسی چلا رہی ہے تو پارلیمنٹ کو اس کے بارے میں پارلیمنٹ کے اندر سے جاننے کی ضرورت ہے اور ایسا میڈیا سے کی گئی گفتگو کے ذریعے نہیں ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی دہشت گردی ترک کرکے ہتھیار ڈالے تو حکومت معافی کیلئے 'تیار' ہے، وزیر خارجہ

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کا صرف ایک بند دروازہ اجلاس واضح طور پر پاکستان کو چیلنج کرنے والے واقعات کی رفتار اور پیمانے کو حل کرنے کے لیے کافی نہیں تھا اور اس کی بھی حساس نوعیت کے باوجود وزیراعظم غیر حاضر تھے۔

دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک بیان میں شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کا واحد علاج نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد ہے۔

بیان میں ان کا کہنا تھا کہ’دہشت گردی کی نرسریوں کو تباہ کرنا ان لوگوں کا علاج ہے جو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں، دہشت گردوں کو ملک دشمن سمجھنے کی ضرورت ہے‘۔

علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے ایک بیان میں کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کو خفیہ رکھنا ’غیر منصفانہ‘ تھا، ٹی ٹی پی کو قوم اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر عام معافی کی پیشکش نے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں