ڈی این ایف بی پی نظام کے باوجود رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں مشکوک لین دین برقرار

اپ ڈیٹ 04 اکتوبر 2021
انہوں نے کہا کہ یہ لین دین تمام نقد رقم میں ہوتا ہے—فائل فوٹو
انہوں نے کہا کہ یہ لین دین تمام نقد رقم میں ہوتا ہے—فائل فوٹو

اسلام آباد: رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں غیر مالیاتی کاروبار اور پیشوں (ڈی این ایف بی پی) نظام کے ذریعے رپورٹنگ کی ضروریات میں بہتری متعارف کرائی گئی ہے لیکن اس شعبے میں بیشتر لین دین تاحال گرے ایریا میں ہورہا ہے جو سنگین چیلنجز کا باعث بن سکتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ ’بہت سی ہاؤسنگ سوسائٹیز اور مارکیٹ کے کھلاڑی ہیں جو اوپن مارکیٹ میں 10 لاکھ روپے سے ایک کروڑ روپے تک کی اوپن فائلوں کے ذریعے کاروبار کررہے ہیں جو مکمل طور پر حکومتی نگرانی سے باہر ہے‘۔

مزید پڑھیں: ملک ریاض: ادنیٰ ٹھیکیدار سے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون بننے تک کا سفر

انہوں نے وضاحت کی کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ساتھ مل کر کام کرنے والے دیگر اداروں نے ڈی این ایف بی پی ایس نظام کے ذریعے رئیل اسٹیٹ اور زیورات کے شعبوں سمیت دیگر پیشہ ور افراد کو ریگولیٹ کرنے میں زبردست کام کیا ہے لیکن تازہ معلومات کے مطابق کچھ شبعے اب بھی ’ریگولیٹڈ نیٹ ورک‘ سے باہر ہیں اور قانونی نظام سے باہر رہتے ہوئے کام کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے سنگین نتائج ہیں کیونکہ یہ لین دین تمام نقد رقم میں ہوتا ہے اس لیے وہ حکومت کے لیے آمدنی پیدا کرنے سے قاصر ہے۔

عہدیدار نے بتایا کہ اس طرح کی کارروائیاں ابتدائی طور پر پراپرٹی ڈیلرز اور ان کے گاہکوں کے درمیان چل رہی تھیں جو اوپن فائلوں کا کاروبار کرتے تھے لیکن اب معروف ہاؤسنگ سوسائٹیز اور ڈیولپرز نے بھی اس کاروباری ماڈل کو اپنایا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک پلاٹ، جائیداد یا اثاثہ ایک فرد کے نام پر رجسٹرڈ ہوتا ہے لیکن حکومت کو محصول ادا کیے بغیر دوسرے کو منتقل کردیا جاتا ہے، اس طرح کے لین دین سوسائٹی/ڈیولپرز کے اندرونی نظام میں ہوتے ہیں جو ٹرانزیکشن کی اجازت دیتے ہوئے ممبر شپ فیس، ٹرانسفر فیس، اسپورٹس فنڈ اور سیکیورٹی چارجز وغیرہ لیتے ہیں لیکن سرکاری طور پر حکومتی سیٹ اپ یا ریونیو میکانزم کا حصہ نہیں بنتے۔

یہ بھی پڑھیں: رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں 70 فیصد اضافہ

ان کا کہنا تھا کہ کچھ معاملات میں ڈیولپرز اور سوسائٹیز اوپن فائلز اور سرٹیفکیٹ بھی استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ اصل میں اس زمین کے مالک نہیں ہیں جس کی وہ مارکیٹنگ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’لہذا وہ رسمی طور پر الاٹمنٹ لیٹر جاری نہیں کرتے اور غیر اعلانیہ رقم کے تبادلے یا بعض اوقات کالے دھن کو آسان بنانے میں مدد کرتے ہیں‘۔

علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے 40 ہزار روپے کے پرائز بانڈز جاری کرنا بند کر دیے ہیں لیکن کچھ معروف سوسائٹیز کھلے عام 10 لاکھ روپے سے ایک کروڑ روپے تک کے حلف نامے یا سرٹیفکیٹ جاری کر رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: رئیل اسٹیٹ کیلئے ایمنسٹی اسکیم جاری کیے جانے کا امکان

عہدیدار نے بتایا کہ یہ کاغذات (حلف نامے) کرنسی نوٹوں کی طرح ہیں، اس طرح کی کارروائیوں کو ریگولیٹڈ حکومت سے باہر رہنے کی بنیادی وجہ ڈی این ایف بی پی ڈائریکٹوریٹ آف ایف بی آر میں افرادی قوت کی کمی ہے۔

گزشتہ ماہ ایف بی آر نے بین الاقوامی شرائط کو پورا کرنے کے لیے ایف اے ٹی ایف پر قومی رابطہ کمیٹی کی مداخلت پر حال ہی میں ڈی این ایف بی پی نظام کے ذریعے رجسٹرڈ ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے وابستہ افراد بشمول بروکرز، ڈیولپرز اور بلڈرز کے لیے رپورٹنگ کی ضروریات کو آسان بنایا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں