’ایران کے ساتھ سفارتکاری ناکام رہی تو دیگر راستے اختیار کیے جائیں گے‘

اپ ڈیٹ 05 اکتوبر 2021
امریکی عہدیدار نے ایران کے لیے ممکنہ اقدامات کی تفصیل نہیں بتائی—رائٹرز
امریکی عہدیدار نے ایران کے لیے ممکنہ اقدامات کی تفصیل نہیں بتائی—رائٹرز

اعلیٰ امریکی عہدیدار اسرائیلی ہم منصبوں کو بتائیں گے کہ بائیڈن حکومت ایران کے ساتھ سفارتکاری کے لیے پُر عزم ہے لیکن اگر ضروری ہوا تو یہ یقینی بنانے کے لیے ایران جوہری ہتھیار حاصل نہ کرے، دیگر راستے اختیار کیے جائیں گے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایک امریکی عہدیدار نے بتایا کہ اسرائیلی مشیر قومی سلامتی ایال ہلاتا کے واشنگٹن کے دورے سے دونوں اتحادی انٹیلی جنس شیئر کرسکیں گے اور تہران کا ایٹمی پروگرام کس حد تک آگے بڑھا ہے اس کا ’بیس لائن جائزہ‘ تیار کرسکیں گے۔

سال 2015 کے معاہدے کے تحت ایران نے معاشی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے اپنے یورینیم افزودگی پروگرام کو روک دیا تھا جو جوہری ہتھیاروں کا ممکنہ راستہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کی بحالی میں پیشرفت

تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں معاہدے سے دستبردار ہوگئے تھے اور اسرائیلی حکومت اسے بحال کرنے کی امریکی کوششوں کی مخالف ہے۔

وسیع تناظر میں شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر ایک عہدیدار نے کہا کہ امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ جب نے ڈونلڈ ٹرمپ معاہدے سے دستبردار ہوئے، ایران کا نیوکلیئر ’بریک آؤٹ‘ (جوہری بم بنانے کے لیے کافی یورینیئم کی افزودگی) حاصل کرنے کا وقت 12 ماہ سے کم ہوکر محض چند ماہ رہ گیا ہے۔

اسرائیلی مشیر قومی سلامتی سے امریکی ہم منصب کی ملاقات سے قبل ایک عہدیدار نے صحافیوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بالکل یہ خاصی تشویشناک بات ہے‘۔

ایران اس بات سے مسلسل انکار کرتا آیا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے ایران کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار

اگست میں اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں صدر جو بائیڈن کے تبصروں کی بازگشت کرتے ہوئے عہدیدار نے کہا کہ ’یقیناً ہم سفارتی راستے کے لیے پرعزم ہیں‘۔

تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر یہ کام نہیں کرتا تو آگے بڑھنے کے اور بھی راستے ہیں اور ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پوری طرح پرعزم ہیں کہ ایران کبھی جوہری ہتھیار تیار نہیں کرے‘۔

جس پر عہدیدار نے کہا کہ پوچھا گیا کہ کیا اقدامات زیر غور ہیں اور کیا اس میں فوجی آپشن شامل ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ہم ایسے اقدامات کرنے کے لیے تیار ہوں گے جو ضروری ہیں البتہ مزید تفصیل نہیں بتائی۔

عہدیدار نے کہا کہ ایران متعدد فریقین کو اشارے بھیج رہا ہے کہ وہ ویانا واپس آنے کی تیاری کر رہے ہیں جہاں امریکا اور ایران نے رواں سال کے اوائل میں بالواسطہ مذاکرات کیے تھے جو بعد میں رک گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل کا ایران کے معاملے پر امریکا کے ساتھ تعاون کا عزم

تاہم رکاوٹیں موجود ہونے کا اشارہ دیتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ نے ہفتے کو کہا تھا کہ امریکا کو پہلے تہران کے منجمد فنڈز میں سے 10 ارب ڈالر خیر سگالی کی علامت کے طور پر جاری کرنا ہوں گے، جس پر بائیڈن انتظامیہ نے آمادگی ظاہر نہیں کی۔

بینجمن نیتن یاہو کے 12 سالہ اقتدار کا خاتمہ کرنے والے اسرائیلی وزیراعظم بینیٹ ایک انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان ہیں، انہوں نے واضح کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جو بائیڈن، اسرائیلی حریف ایران کے خلاف اپنا مؤقف سخت کریں۔

اس کے علاوہ جو بائیڈن کی مقبوضہ زمین پر یہودی بستیوں کی مزید توسیع کی مخالفت پر بھی اختلاف ہے، جو فلسطینی اپنی مستقبل کی ریاست کے لیے چاہتے ہیں۔

امریکی عہدیدار سے پوچھا گیا کہ کیا یہ مسئلہ منگل کے روز ہونے والی بات چیت کا حصہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل انتظامیہ کے نقطہ نظر سے بخوبی آگاہ ہے کہ وہ ایسے اقدامات سے باز رہے جنہیں ’اشتعال انگیز‘ کے طور پر دیکھا جائے اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان دو ریاستی حل کے حصول کی کوشش کمزور ہو۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں