افغان وزیر خارجہ کا تعلقات قائم کرنے پر زور، لڑکیوں کی تعلیم پر ٹھوس وعدوں سے گریز

اپ ڈیٹ 12 اکتوبر 2021
طالبان کی نئی انتظامیہ لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کی وجہ سے مسلسل تنقید کی زد میں ہے— رائٹرز
طالبان کی نئی انتظامیہ لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کی وجہ سے مسلسل تنقید کی زد میں ہے— رائٹرز

افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے دنیا سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی اپیل کی ہے لیکن تمام افغان بچوں کو واپس اسکول جانے کی اجازت دینے کے بین الاقوامی مطالبات کے باوجود لڑکیوں کی تعلیم پر ٹھوس وعدے کرنے سے گریز کیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے خاتمے اور طالبان کے کابل پر قبضے کے لگ بھگ 2 ماہ بعد نئی طالبان انتظامیہ نے تباہ کن معاشی بحران سے بچنے کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر زور دیا ہے۔

دوحہ انسٹی ٹیوٹ فار گریجویٹ اسٹڈیز میں سینٹر فار کنفلکٹ اینڈ ہیومینیٹیرین اسٹڈیز کے زیر اہتمام ایک تقریب میں افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو ہمارے ساتھ تعاون کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: خواتین سے متعلق کیے گئے وعدے ’توڑنے‘ پر اقوام متحدہ کے سربراہ کی طالبان پر تنقید

انہوں نے کہا کہ اس تعاون سے ہم عدم تحفظ کو روکنے کے قابل ہو جائیں گے اور ساتھ ہی ہم دنیا کے ساتھ مثبت طور پر مصروفِ عمل ہوسکیں گے۔

تاہم طالبان نے ابھی تک لڑکیوں کو ہائی اسکول میں واپس آنے کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے جو بین الاقوامی برادری کے اہم مطالبات میں سے ایک ہے۔

گزشتہ ماہ چھٹی جماعت سے صرف لڑکوں کے لیے اسکول کھولنے کے فیصلے کے بعد عالمی برادری کی جانب سے مذکورہ مطالبہ کیا جارہا ہے۔

امیر خان متقی نے کہا کہ طالبان کی حکومت 'امارات اسلامی' احتیاط سے آگے بڑھ رہی ہے لیکن وہ صرف چند ہفتوں کے لیے اقتدار میں رہی ہے اور توقع نہیں کی جاسکتی کہ ان اصلاحات کو نافذ کیا جائے جو عالمی برادری 20 سالوں میں نہیں کرسکی۔

انہوں نے کہا کہ ‘ان کے پاس بہت زیادہ مالی وسائل تھے اور انہیں مضبوط بین الاقوامی پشت پناہی اور حمایت حاصل تھی لیکن آپ 2 ماہ میں ہم سے تمام اصلاحات نافذ کرنے کو کہہ رہے ہیں؟'

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتی ہیں، مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں، طالبان

خیال رہے کہ طالبان کی نئی انتظامیہ لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کی وجہ سے مسلسل تنقید کی زد میں ہے، جسے افغانستان میں مغرب کی 2 دہائیوں تک جاری رہنے والی موجودگی کے غیر واضح مثبت فوائد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی ضمانت کے وعدے توڑے ہیں اور اگر خواتین کو کام کرنے سے روک دیا جائے تو معیشت کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔

امیر خان متقی نے امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ 9 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے افغان مرکزی بینک کے ذخائر جاری کرے جو ملک سے باہر موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان: خواتین امور کی معطل وزارت کی عمارت کے سامنے عملے کا احتجاج

انہوں نے کہا کہ اگر فنڈز منجمد رہتے ہیں تو حکومت کے پاس ٹیکس، کسٹم ٹیرف اور زراعت سے حاصل ہونے والی آمدن موجود ہے۔

امیر خان متقی نے کہا کہ طالبان فورسز کو ملک پر مکمل کنٹرول حاصل ہے اور وہ داعش کے خطرے پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے ہیں جس نے حالیہ ہفتوں میں قندوز کی ایک مسجد میں دھماکے سمیت متعدد ہلاکت خیز حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’امارات اسلامی نے اب تک بہت اچھے طریقے سے داعش کے مسئلے کو کنٹرول کیا ہے‘۔

افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیا کو ہم پر دباؤ ڈالنے کے بجائے ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں