بھارت میں مسلمانوں پر ظلم، او آئی سی کا اظہار مذمت، مشرق وسطیٰ میں مصنوعات کا بائیکاٹ

15 اکتوبر 2021
آسامی حکومت وقتا بوقتا ماضی میں بھی مسلمانوں کے خلاف آپریشن کرتی آئی ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
آسامی حکومت وقتا بوقتا ماضی میں بھی مسلمانوں کے خلاف آپریشن کرتی آئی ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

پڑوسی ملک بھارت میں مسلمانوں کے خلاف جاری منظم تشدد اور قتل و غارت گری کے واقعات پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے مذمت کا اظہار کرتے ہوئے انڈین حکومت سے مسلمانوں کا تحفظ یقینی بنانے کا مطالبہ کردیا۔

جب کہ مسلمانوں کے استحصال اور ان پر منظم تشدد کے خلاف مختلف مشرق وسطیٰ کے ممالک میں انڈیا کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بھی شروع ہوگئی۔

سرکاری خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان‘ (اے پی پی) کے مطابق بھارت کی ریاست آسام میں مسلمانوں کے خلاف جاری منظم تشدد اور قتل و غارت گری کے خلاف مختلف مشرق وسطی ممالک میں ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع ہوگئی۔

رپورٹ کے مطابق ابتدائی طور پر مسلمانوں پر منظم تشدد کے خلاف خلیجی ملک کویت کی قومی اسمبلی نے بھارتی مظالم کے خلاف قرار داد منظور کی تھی، جس کے بعد متعدد اسکالرز اور اہم سیاسی و سماجی شخصیات نے انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی۔

مشرق وسطی ممالک میں بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع کردیا گیا—فوٹو: ٹوئٹر
مشرق وسطی ممالک میں بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع کردیا گیا—فوٹو: ٹوئٹر

مسلمانوں پر منظم تشدد اور انہیں مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنائے جانے کے خلاف مشرق وسطیٰ کے اہم اسکالرز نے حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر پوسٹس کرکے بھارتی اقدامات کی مذمت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: آسام میں پولیس اور صحافی کا ایک شخص پر تشدد، ویڈیوز وائرل ہونے پر غم و غصہ

’اسلامی تعلیمی، ثقافتی و سائنسی تعاون تنظیم‘ (آئی ای ایس سی او) کے سابق سربراہ عبدالعزیز التجویری سمیت معروف اسکالر عبدالرحمٰن النصار کی جانب سے آسام میں مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے ٹوئٹس کرتے ہوئے بھارتی اقدامات کی مذمت کی تھی۔

اسی طرح ایک اور اسکالر صالح ذیاب المطیری نے بھی بھارتی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے اسلامی ممالک کو اپیل کی تھی کہ وہ انڈیا کے خلاف متحد ہوکر کارروائی کریں۔

اسکالرز کی جانب سے بھارتی اقدامات پر اظہار مذمت کیے جانے کے بعد مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سوشل میڈیا پر بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کا ٹرینڈ ٹاپ پر آگیا اور لوگوں نے بھارتی مصنوعات نہ خریدنے کا عہد بھی کیا۔

مسلمان کی لاش کی تذلیل کا واقعہ 24 ستمبر کو پیش آیا تھا—اسکرین شاٹ/ فیس بک ویڈیو
مسلمان کی لاش کی تذلیل کا واقعہ 24 ستمبر کو پیش آیا تھا—اسکرین شاٹ/ فیس بک ویڈیو

دوسری جانب اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھی اپنی سلسلہ وار ٹوئٹس میں بھارت میں مسلمانوں پر منظم تشدد اور مظالم کی مذمت کرتے ہوئے انڈین حکومت سے انہیں تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

او آئی سی نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کو بنیادی انسانی حقوق کے تحت مذہبی آزادی دی جائے۔

مزید پڑھیں: بھارتی ناظم الامور کی دفتر خارجہ طلبی، آسام میں مسلمانوں پر تشدد، فائرنگ پر احتجاج

او آئی سی کی جانب سے مذمتی بیان اور مشرق وسطی کے ممالک میں بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کا سلسلہ ایک ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب کہ حال ہی میں ریاست آسام میں پولیس اور صحافیوں کی جانب سے ایک مسلمان کو ہلاک کرکے ان کی تشدد زدہ لاش کی تذلیل کرنے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔

مذکورہ ویڈیو گزشتہ ماہ 24 ستمبر کو سامنے آئی تھی، جس میں ریاست آسام کے ایک گاؤں میں پولیس کو مسلمانوں پر فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس کی فائرنگ سے ایک شخص شدید زخمی حالت میں گر گیا، جس کے بعد پولیس اہلکاروں سمیت وہاں موجود ایک صحافی نے اس پر تشدد کیا۔

ویڈیو سے معلوم ہوا تھا کہ پولیس اہلکار اور صحافی فائرنگ سے زخمی ہونے والے شخص پر اس وقت تک تشدد کرتے رہے تھے جب وہ ہلاک ہوچکا تھا۔

ویڈیو میں پولیس اہلکاروں سے زیادہ صحافی کو جوشیلے انداز میں ہلاک ہونے والے شخص پر تشدد کرتے دیکھا گیا تھا۔

بعد ازاں معلوم ہوا تھا کہ ہلاک ہونے والا شخص بھی مسلمان تھا اور پولیس نے اس کی لاش کی تذلیل کی، جس پر مقامی لوگوں نے بھی احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔

اسی معاملے پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی اسلام آباد میں تعینات ناظم الامور کو وضاحت کے لیے 25 ستمبر کو طلب کیا تھا۔

مسلمانوں پر تشدد کا اصل معاملہ کیا ہے؟

بھارتی ریاست آسام میں گزشتہ ماہ ستمبر کے آغاز سے ہی بنگالی نسل کے مسلمانوں کے خلاف ریاستی حکومت کی سرپرستی میں پولیس نے آپریشن شروع کیا۔

عرب نشریاتی ادارے ’الجزیزہ‘ کے مطابق مذکورہ آپریشن مسلمانوں سے جگہ خالی کرانے کے لیے شروع کیا گیا، کیوں کہ ریاستی حکومت کے بقول انہوں نے تجاوزات قائم کر رکھی تھیں۔

آسامی حکومت جن مسلمانوں کو قبضۃ مافیا قرار دیتی ہیں، ان کے پاس وہاں کی رہائش کے ثبوت بھی موجود ہیں—فوٹو: الجزیرہ
آسامی حکومت جن مسلمانوں کو قبضۃ مافیا قرار دیتی ہیں، ان کے پاس وہاں کی رہائش کے ثبوت بھی موجود ہیں—فوٹو: الجزیرہ

دلچسپ بات یہ ہے کہ جن مسلمانوں کے خلاف آپریشن کیا گیا، وہ مذکورہ جگہ پر 1980 کے بعد سے رہائش پذیر ہیں اور زیادہ تر مسلمان بنگالی نسل کے ہیں، جنہیں بھارتی حکومت اپنا شہری تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

آسام میں ایک کروڑ سے زائد مسلمان بستے ہیں، جن میں سے زیادہ تر مسلمانوں کا تعلق بنگالی و برمی نسل سے ہے، جنہیں بھارتی حکومت نے متنازع شہریت قانون کے تحت اپنا شہری رجسٹرڈ کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ریاست آسام کی حکومت نے پولیس کو ریاست ہما چل پردیش کی سرحد کے قریب والے علاقے میں آپریشن کا حکم دیا تھا۔

صرف ریاست آسام ہی نہیں بلکہ ہما چل پردیش کی پولیس نے بھی ڈھولاپور نامی علاقے میں بنگالی نسل کے مسلمانوں کے خلاف زمین کوخالی کرانے کی غرض سے آپریشن شروع کیا جو پر تشدد مظاہروں اور کشیدگی میں تبدیل ہوگیا۔

آسام میں زیادہ تر بنگالی و برمی نسل کے مسلمان رہتے ہیں—فوٹو: الجزیرہ
آسام میں زیادہ تر بنگالی و برمی نسل کے مسلمان رہتے ہیں—فوٹو: الجزیرہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں