اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ حکومت کا احتساب کا ڈراما ختم ہوگیا اور اب ان کا احتساب شروع کرنا ہے اور کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔

فیصل آبادمیں پی ڈی ایم کے جلسے سےخطاب کرتےہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ یہ جلسہ ایک ایسے موقع پر ہورہا ہے جو جناب رسول اللہﷺ کی میلاد کا مہینہ ہے اور جس کی نسبت سے کرہ ارض، فضائیں اور افلاک روشن ہوئیں اور آج ان کے نام اور انہی کی نسبت سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے اور پاکستان کو اسلام اور عدل و انصاف کا گہوارا بنائیں گے۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کا ملک میں فی الفور شفاف انتخابات کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ جو حکمران سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے مخالفین کا احتساب کر رہے ہیں تو میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ تمہارے احتساب کا ڈرامہ ختم ہوگیا ہے اور اب پی ڈی ایم نے تمہارا احتساب شروع کرنا ہے اور تمہیں کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر سیاست دانوں کو سزا ملتی ہے تو بات سمجھ آتی ہے کہ ہم نے آمروں اور آمروں کے کٹھ پتلیوں کو چیلنج کیا ہے اور میدان عمل میں ان کا مقابلہ کر رہے ہیں، لیکن غریب عوام جن کے ووٹ کا نام لے تم اقتدار پر بیٹھے ہو، ان عوام کا کیا قصور ہے کہ آج قوم پر مہنگائی کے پہاڑ توڑ کر رکھ دیے۔

سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ ایک عذاب کی صورت میں آج تم قوم پر مسلط ہو، روز بروز قیمتیں بڑھ رہی ہیں، ریاستوں کا دار مدار دو باتوں پر ہوتا ہے، ایک دفاعی اور دوسری معاشی قوت پر ہوتا ہے، کسی زمانے میں دفاعی قوت دار مدار ہوتا تھا لیکن آج معیشت دارمدار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر معیشت گر جاتی ہے تو پھر ریاست اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی، سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے، کس طرح دنیا کی ایک بڑی طاقت کا نام و نشان مٹ گیا جب 12 سالہ افغان جہاد نے اس کے اقتصاد کو زمین بوس کردیا۔

انہوں نے کہا کہ ‘آج ایک بار پھر دنیا میں معیشت کی جنگ شروع ہوچکی ہے، انگریز نے 200 سال پہلے ایشیا پر قبضہ کرکے اپنی معیشت مضبوط کرنی شروع کی، یورپی قوتوں نے نے اسلامی دنیا پر حکمرانی کی، آج پھر کایا پلٹ رہی ہے، اقتصاد کا ترازو واپس ایشیا کی طرف آرہا ہے، چین دنیا کی ایک متبادل اقتصادی قوت پر بننے جارہا ہے تو پاکستان پر دباؤ بڑھ گیا ہے’۔

وزیراعظم کا نام لیے بغیر اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘آج کا حکمران یہی ایجنڈا لے کر آیا ہے کہ پاکستان اور ایشیا اور چین کی اقتصادی قوت توڑ دیے اور مغرب کی اقتصادی بالادستی برقرار رکھے’۔

یہ بھی پڑھیں:اجتماعی استعفے نہ دیے تو اس حکومت کی مدت طویل ہوتی جائے گی، مولانا فضل الرحمٰن

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘تعجب کی بات یہ ہے کہ جو ادارے ریاست کی بقا کے ذمہ دار ہیں، انہوں نے ان کے لیے دھاندلی کرکے پاکستان عطا کیا ہے، ہمیں گلہ اور شکوہ ہے، ہم اداروں کے دشمن نہیں، ہم پاکستان کے اداروں کو طاقت ور اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ بھی پاکستانی ہیں غلطیاں تو نہ کریں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے درمیان ایک معاہدہ ہے اور اس میثاق ملی کا نام 1973 کا آئین ہے، اگر وہ آئین ہمارے درمیان ہے، اس نے ہر ادارے کا دائرہ کار متعین کیا ہے تو ہر ادارے کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ذمہ داری پوری کرنی ہوگی، دوسرے اداروں میں مداخلت ہمیشہ فساد برپا کرتا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ ہے، پاکستان کا سب سے زیادہ بااختیار ادارہ ہے، آج اس ادارے کو ربڑ اسٹمپ بنایا گیا ہے، عوام کی قوت کو غلام بنایا جا رہا ہے’۔

پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ ‘ملک کی معیشت کو تباہ کرکے عام آدمی صبح و شام اپنی روٹی کے لیے فکرمند ہوگا، جن سے اپنے بچوں کی بھوک دیکھی نہیں جاسکے گی اور لوگ خود کشی پر مجبور ہوجائیں گے تو وہاں عوام کی قوت کہاں رہ جائے گی، پارلیمنٹ کی حیثیت کیا رہ جائے گی’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘آج ہم جو جنگ لڑ رہے ہیں اور سیاسی جماعتوں کا پلیٹ فارم پی ڈی ایم درحقیقت اقتدار حاصل کرنے کے لیے نہیں بنایا بلکہ اس ملک کی بقا کے لیے بنایا ہے اور پاکستان کی بقا اسی میں ہے کہ اس جیسے نااہل اور ناجائز حکمرانوں کو رخصت کریں اور ان سے اقتدار چھین لیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘جس چین کو ہم دوست سمجھتے تھے، 70 سال سے جس دوستی کو ہمالیہ سے بلند اور بحرالکاہل سے زیادہ گہری دوستی سمجھتے تھے، جس کو شہد سے میٹھی دوستی سمجھتے تھے اور جس نے سب سے پہلےپاکستان پر اعتماد کیا اور سی پیک کی صورت میں 70 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کا انتخاب کیا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘وہی دوست اس کے لیے آستین کا سانپ بن گیا ہے، چین کو بھی ناراض کردیا، امریکا اور یورپ نے بھی کوئی مدد نہیں کی، افغانستان وہاں کے حالات کے مطابق ابھی جنگ سےنکلا نہیں ہے، وہ پاکستان کی مدد نہیں کرسکتا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ایران اس وقت بھارت کے ترازو میں بیٹھا ہوا ہے اور بھارت پوری جارحیت کے ساتھ آپ کے وجود پر حملے کر رہا ہے، کشمیر تم سے چھین لیا ہے اور تم کشمیر فروش ہو، پھر کس بنیاد پر تمہیں پاکستان کے عوام کا نمائندہ سمجھا جائے’۔

حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘تم کب تک اس بات پر سیاست کرتے رہو گے کہ فلانا چور ہے اور ہر ایک کو چور کہنا تمھاری سیاست کی بنیاد ہے، کوئی مثبت پروگرام نہیں، ایک منفی نعرے کی بنیاد پر سیاست کر رہے ہو’۔

انہوں نے کہا کہ ‘دوسروں کو چور مت کہو اپنے گریبان پر جھانکو، تم نے تو تحفے کی گھڑیاں بھی بیچ دی ہیں، ایسا لالچی کہیں نہیں دیکھا کہ عالمی سطح پر کسی نے قیمتی گھڑی تحفے میں دی اور کسی نے کہا اتنے کروڑ کی تو دبئی میں بیچنے گئے، ایسے لوگوں کو آپ اپنا نمائندہ کہہ سکتے ہیں’۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘اب یہ تحریک آگے بڑھے گی، آپ تعاون کریں تو پی ڈی ایم کی جماعتوں سے ضرور کہوں گا کہ اب صرف جلسوں پر اکتفا نہیں ہے اب ہمیں مسلسل سڑکوں پر آنا چاہیے اور عوام سڑکوں پر آئیں گے ، عوام کو آج سہارا چاہیے، اگر آج قوم مایوس ہوگئی تو آنے والا مستقل خون خرابے کے علاوہ کچھ نہیں ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘قوم سڑکوں پر آئے ہم ان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے، ہم میدان، صحراؤں، جنگلوں، پہاڑوں میں ان کے ساتھ ہیں، پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان شااللہ کشمیر پر بھی کھڑے رہیں گے،جب تک ہم تھے کشمیر کا سودا نہیں ہوسکتا تھا’۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے عوام کو بے وقوف بنایا کہ میں تمہیں ایک کروڑ نوکریاں دوں گا، ‘ایک کروڑ نوکریاں کیادیں گے کہ انہوں اب تک 30 لاکھ باروزگار ملازمین کو فارغ کیا ہے، ابھی حال ہی میں ایک جج ریٹائر ہورہا تھا ریٹائرمنٹ سے پہلے آخری فیصلہ دیا ہے وہ فیصلہ 16 ہزار ملازمین کی برطرفی کا ہے’۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اب ہمیں خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے، قوم باہر نکلے پی ڈی ایم قیادت کرے گی اور ایک مستحکم پاکستان کی بنیاد ڈالے گی، میں خود بھی پریشان ہوں کہ اس نے ملک کو جہاں بٹھادیا ہے وہاں سے اٹھانا کتنا مشکل کام ہے، کسی نے تو اس چیلنج کو لینا اور اس میدان میں آکر ذمہ داریاں لینی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب کے لوگ اٹھیں، پنجاب ہم سب کا بڑا بھائی ہے، بڑا بھائی اٹھے گا تو ملک میں حوصلہ ہوگا اور ان شااللہ انقلاب آئے گا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 31 اکتوبر کو ڈیرا غازی خان میں پی ڈی ایم کا قافلہ پہنچے گا اور اس وقت تک نہایت مضبوط، مؤثر اور مستحکم حکمت عملی بھی وضع کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں