داعش نے قندھار کی مسجد میں خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کرلی

16 اکتوبر 2021
قندھار کی مسجد میں خود کش حملے میں 41 افراد جاں بحق اور 71 سے زائد زخمی ہوئے—فوٹو: اے ایف پی
قندھار کی مسجد میں خود کش حملے میں 41 افراد جاں بحق اور 71 سے زائد زخمی ہوئے—فوٹو: اے ایف پی

دہشت گرد تنظیم داعش نے افغانستان کے مغربی شہر قندھار میں گزشتہ روز نماز جمعہ کے دوران ہوئے خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کرلی جہاں 41 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

خبرایجنسی اے ایف کی رپورٹ کے مطابق داعش نے اپنے ٹیلیگرام چینل میں جاری بیان میں کہا کہ داعش کے دو خود کش حملہ آوروں نے طالبان کے مرکزی علاقے قندھار کے مختلف علاقوں میں مساجد میں الگ الگ حملے کیے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: قندھار کی امام بارگاہ میں دھماکا، 41 افراد جاں بحق

برطانوی تحقیقی ادارے ایکس ٹریس کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز کا حملہ قندھار میں داعش کا پہلا حملہ ہے اور جب سےطالبان نے کابل پر قبضہ کیا ہے اس وقت اب تک افغانستان میں ان کا یہ چوتھا حملہ ہے۔

ایکس ٹریس کے محقق عبدالسعید کا کہنا تھا کہ یہ حملہ طالبان کے لیے چیلنج ہے کیونکہ وہ پورے ملک میں اپنے قبضے کا دعویٰ کر رہے ہیں، لیکن اگر طالبان قندھار کو داعش سے محفوظ نہیں رکھ سکتے تو وہ باقی ملک کو کیسے تحفظ دے سکتے ہیں۔

خیال رہے گزشتہ روز قندھار میں ایک امام بارگاہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران بم دھماکے کے نتیجے میں 41 افراد جاں بحق اور 70 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

طالبان عہدیداروں نے بتایا تھا کہ شمالی افغانستان کے شہر قندھار میں نماز جمعہ کے دوران خود کش حملہ کیا گیا۔

قندھار کے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر حافظ عبداللہی عباس نے کہا کہ ‘ہسپتال سے آنے والی اطلاعات کے مطابق آج مسجد میں ہونے والےدھماکے میں 41 افراد جاں بحق اور 70 زخمی ہوگئے ہیں’۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ امارات اسلامی اس واقعے کی مذمت کرتی ہے اور اس کو بہت بڑا جرم تصور کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ذمہ داروں کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: کابل میں مسجد کے باہر دھماکا، دو افراد جاں بحق

سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز اور تصاویر میں بہت سے افراد کو امام بارگاہ کے فرش پر دیکھا جاسکتا ہے جو شدید زخمی ہوئے تھے۔

عینی شاہد نے بتایا تھا کہ انہوں نے تین دھماکے سنے جن میں سے پہلا امام بارگاہ کے مرکزی دروازے، دوسرا جنوبی دروازے جبکہ تیسرا وضو خانے میں ہوا۔

صوبائی کونسل کے سابق رکن نعمت اللہ وفا نے کہا تھا کہ دھماکا امام بارگاہ میں ہوا جس کے نتیجے میں بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘اقوام متحدہ مذہبی ادارے اور عبادت گزاروں پر حملے کے حالیہ واقعے کی مذمت کرتی ہے، ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہیے’۔

قبل ازیں گزشتہ جمعہ کو افغانستان کے شمال مشرقی صوبے قندوز کی ایک مسجد میں نماز کی ادائیگی کے دوران دھماکے کے نتیجے میں 55 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

اس دھماکے میں بھی اہلِ تشیع برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

داعش کی جانب سے افغانستان میں طالبان کے خلاف سخت مؤقف اپناتے ہوئے کئی حملے کیے جاچکے ہیں اور ان کے علاوہ افغانستان میں دیگر برادریوں اور مکتب فکر کے افراد کو بھی نشانہ بنا یا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: داعش کا تعاقب کیا جارہا ہے، ذبیح اللہ مجاہد

اس سے قبل 3 اکتوبر کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مسجد کے باہر دھماکے کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

بم دھماکا کابل کی عیدگاہ مسجد کے دروازے کے قریب ہوا تھا جہاں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی والدہ کا تعزیتی اجلاس ہو رہا تھا۔

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ طالبان نے 15اگست کو کابل کا کنٹرول سنبھالا تھا جس کے بعد سے انہیں اندرونی طور پر داعش کے خطرے کا سامنا ہے۔

تاہم حال ہی میں ایک بیان میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ امارت اسلامیہ ان کا تعاقب کررہی ہے اور ہماری افواج داعش کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ ہفتے میں ہم نے داعش سے تعلق رکھنے والے کئی لوگوں کو گرفتار کیا اور ان کے کئی محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کر دیا ہے جبکہ ان کے کئی حملوں کو بے اثر کر دیا ہے

تبصرے (0) بند ہیں