ہوسکتا ہے حالات ایسے ہوجائیں کہ ‘کاروان’ کے بغیر ہمارا مقصد حاصل ہوجائے، مولانا فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 18 اکتوبر 2021
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد کے مسلم لیگ ہاؤس میں پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو  کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد کے مسلم لیگ ہاؤس میں پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ 20 اکتوبر سے مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ حالات اس قدر گرم ہو جائیں کہ ہم جو مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ کاروان کے بغیر حاصل ہو جائے۔

اسلام آباد کے مسلم لیگ ہاؤس میں پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا جس میں میاں نواز شریف، شہباز شریف، اختر جان مینگل سمیت تمام قائدین اجلاس میں شریک ہوئے۔

مزید پڑھیں: حکومت کی مدت پوری کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مولانا فضل الرحمٰن

انہوں نے کہا کہ کل ہنگامی پریس کانفرنس میں 20 اکتوبر سے ملک بھر میں مہنگائی کے خلاف مظاہرے شروع کرنے کے حوالے سے جو اعلان کیا گیا تھا، اجلاس نے اس اعلان کی توثیق کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کے خلاف پورے ملک کے صوبائی اور ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں 20 اکتوبر سے ریلیاں اور مظاہرے شروع ہو جائیں گے اور تمام صوبائی قیادت کو یہ ہدایات جاری کی جا رہی ہیں کہ وہ آپس میں فوری طور پر رابطہ کر کے اپنے اجلاس کریں اور صوبائی سطح پر رابطہ کاروں کا تقرر کریں تاکہ ایک مضبوط اور مربوط نظام قائم کیا جائے اور نظم و ضبط کے ساتھ ملک میں مظاہروں کی نگرانی کی جا سکے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ پارٹی اجلاس میں نیب ترمیمی آرڈیننس کو مکمل طور پر مسترد کردیا گیا ہے اور نیب کا ادارہ ہی آمریت کی باقیات میں سے ہے اور یہ ہمیشہ مخالفین اور حزب اختلاف کے خلاف سیاسی انتقام کے طور پر استعمال ہوا ہے اور اس ادارے سے احتساب کی کوئی توقع نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے انتخابی اصلاحات کے لیے مجوزہ ترامیم کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، یہ درحیققت کا آر ٹی ایس کا دوسرا نام ہے تاکہ بڑے تکنیکی وسائل سے دھاندلی کی جائے، ووٹ چوری کیے جائیں اور جو حکومت خود دھاندلی کے نتیجے میں آئی ہے اس کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ ملک کو ایک آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے لیے فارمولا یا قانون دے سکے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومتی احتساب کا ڈراما ختم، اب ان کو کیفرکردار تک پہنچانا ہے، مولانا فضل الرحمٰن

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں افغانستان یا ایران سے منسلک سرحدیں بند کردی گئی ہیں جس سے سرحد پر رہنے والے عوام بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، سرحدوں کو تجارت اور کاروبار کے لیے کھول دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں بار بار بلدیاتی انتخابات کی بات ہوتی ہے لیکن ہمارا مطالبہ عام انتخابات کا ہے، جب تک اس ملک میں شفاف عام انتخابات نہیں ہوتے اور جائز حکومتیں قائم نہیں ہوتیں، تو اس حکومت کی نگرانی میں بلدیاتی انتخابات کا کوئی جواز نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 20 اکتوبر سے پاکستان ریلیوں اور مظاہروں کا آغاز ہو جائے گا اور کسی قیمت پر بھی مہنگائی کے اس پہاڑ سے کراہنے والی قوم کے لیے اب یہ برداشت کرنا ناممکن ہو گیا ہے اور اس تحریک کی پی ڈی ایم مکمل قیادت کرے گی اور عوام کے شانہ بشانہ رہے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں ابھی احتجاج کا شیڈول بنانا ہے، ریلیوں کا آغاز ہو جائے گا، مظاہرے ہوں گے، پہیہ جام ہڑتالیں ہوں گی اور لانگ مارچ تک معاملات جائیں گے، جیسے جیسے مرحلہ وار صورتحال آگے بڑھتی جائے گی ، اس کے لحاظ سے ہماری اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس کے ساتھ ساتھ سربراہی اجلاس ہوتے رہیں گے

انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ حالات اس قدر سرگرم ہو جائیں کہ ہم جو مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ کاروان کے بغیر حاصل ہو جائے۔

مزید پڑھیں: ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر میں وزیراعظم کا اختیار حُسن کی حد تک ہے، مولانا فضل الرحمٰن

آئی ایس ایس سربراہ کے تقرر کے حوالے سے جاری کشمکش کے بارے میں سوال پر جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے کہا کہ پی ڈی ایم کسی سرکاری معاملات میں مداخلت نہیں کررہی اور صرف اور صرف ملک میں جمہوری اور آئینی نظام چاہتی ہے، ہماری توجہ اپنے مقصد پر مرکوز ہے اور ہم کسی دوسرے کے معاملات پر اپنی توانائیاں صرف نہیں کرنا چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت تو حکومت کے پاس ایسا کوئی تعویز نہیں کہ وہ قیمت کم کر سکیں اور عمران خان کے اپنے فارمولے کے مطابق وہی سب سے بڑے چور نظر آ رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے پارلیمنٹ سے ان ہاؤس تبدیلی کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم تازہ الیکشن چاہتے ہیں اور اگر اسمبلی کے اندر تبدیلی کی بات ہوتی تو ہم اس وقت پیپلز پارٹی کی بات مان لیتے۔

تبصرے (0) بند ہیں