نور مقدم قتل کیس: ہائیکورٹ نے ظاہر جعفر کی درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کردیے

20 اکتوبر 2021
ٹرائل کورٹ نے 14 اکتوبر کو نور مقدم قتل کیس کے ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی—فائل فوٹو: ڈان نیوز
ٹرائل کورٹ نے 14 اکتوبر کو نور مقدم قتل کیس کے ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی—فائل فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف مرکزی ملزم کے والدین کی درخواست اور تمام دستاویزات فراہم نہ کرنے کے خلاف ملزمان ذاکر جعفر، عصمت جعفر اور طاہر ظہور کی درخواستوں پر سماعت کی۔

درخواست میں کہا گیا کہ کیس کے تفتیشی افسر کی خواہش پر چارج فریم نہیں کیا جاسکتا، ٹرائل کورٹ کا فیصلہ خلاف قانون اور اختیارات کا غلط استعمال ہے۔

ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست میں کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ کے 14 اکتوبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کی والدہ کی درخواست ضمانت منظور

ٹرائل کورٹ نے 14 اکتوبر کو نور مقدم قتل کیس کے ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی۔

عدالت نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 25 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیشن عدالت کی جانب سے تمام دستاویزات فراہم نہ کرنے کے خلاف ملزمان ذاکر جعفر، عصمت جعفر اور طاہر ظہور کی درخواستوں پر بھی سماعت کی۔

جس پر وکیل نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے ملزمان کی حاضری مکمل کرائی جس کے بعد چالان کی نقول تقسیم کرنے کا مرحلہ تھا لیکن چالان کی کاپیز کے ساتھ صرف گواہوں کے بیانات کی نقول فراہم کی گئیں۔

وکیل نے عدالت کے سامنے اعتراض اٹھایا کہ تمام متعلقہ دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں، قانون کے مطابق پولیس اور مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرائے گئے تمام بیانات کی نقول ملنی چاہئیں مگر ہمیں صرف گواہوں کے بیانات کی نقول دی گئیں۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ کیس ڈائری میں کچھ چیزیں شامل ہیں جو فراہم نہیں کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: استغاثہ کو عصمت ذاکر کی حد تک شواہد پیش کرنے کی ہدایت

اس پر عدالت نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کے بیانات ریکارڈ ہوئے مگر انہیں گواہ نہیں بنایا گیا۔

عدالت نے کہا کہ گواہ نہ بنائے گئے افراد کے بیانات کی نقول ملزمان کو نہ دی گئیں؟ جو بھی مواد ریکارڈ پر ہے وہ خواہ ملزم کے خلاف یا اس کے حق میں ہو، وہ سب ملزمان کو ملنا چاہیے۔

اس پر پولیس حکام نے کہا کہ ہم نے جو بیانات ریکارڈ کیے وہ چالان کے ساتھ ملزمان کو فراہم کر دیے ہیں۔

جس پر مدعی مقدمہ شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ ایکسرسائز ٹرائل کورٹ میں بھی ہو چکی ہے۔

اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ شفاف ٹرائل کا تقاضا ہے کہ ملزمان کو تمام ریکارڈ فراہم کیا جائے، ہم سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کر دیتے ہیں، آپ آپس میں بیٹھ کر ریکارڈ دیکھ لیں کہ کچھ دستاویزات فراہمی سے رہ تو نہیں گئے۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام 12 ملزمان پر فرد جرم عائد

آدھے گھنٹتے کے وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہونے پر ملزم کے وکیل نے کہا کہ ریکارڈ دیکھنے سے پتا چلا کہ پولیس کے سامنے ریکارڈ کرائے گئے ایک گواہ کا بیان نہیں ملا۔

جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ ہیڈ کانسٹیبل محمد جابر سی ڈی آر کے گواہ ہیں جن کا بیان 14 اکتوبر کو ریکارڈ کیا گیا جبکہ چالان اس بیان سے پہلے جمع ہو چکا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس بیان کی کاپی سپلیمنٹری چالان کے ساتھ جمع ہونی ہے، اس بیان کی حد تک تو سپلیمنٹری چالان ہی ابھی عدالت میں پیش نہیں ہوا، شوکت علی مقدم کا سپلمنٹری بیان جس دریافت کے نتیجے میں قلمبند ہوا وہ بھی مانگا جا رہا ہے۔

اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ بتائیں کہ دفعہ 161 کے تحت پولیس کا ریکارڈ کیا گیا کوئی بیان فراہم کرنے سے رہ گیا ہے یا نہیں، یہ بات تو طے ہے کہ جس گواہ کا بیان عبوری چالان کے بعد ریکارڈ ہوا وہ ضمنی چالان کے ساتھ جمع ہو گا۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 8 ہفتوں کی ڈائریکشن بھی ہے، سپریم کورٹ نے اس ڈائریکشن کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی اور اسے برقرار رکھا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس میں کہا کہ خواجہ حارث نے ضمانت کی درخواست پر دلائل کے دوران کیس ڈائریز کا ذکر کیا تھا، ان کے پاس تو تمام ریکارڈ دستیاب تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کیلئے 14 اکتوبر کی تاریخ مقرر

درخواست کے وکیل اسد جمال نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج بھی فراہم نہیں کی جا رہی ہے، ڈی وی آر کا ٹرانسکرپٹ فراہم کر رہے ہیں، ہمیں سی سی ٹی وی فوٹیج کا ریکارڈ بھی فراہم کیا جائے۔

اس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہم ان چیزوں میں لے جا کر ٹرائل کو لٹکا دیتے ہیں، کوشش کریں کہ ایسا نہ ہو جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ یہ چیزیں ہم ابھی انہیں مہیا کر دیتے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ کہ ہم آرڈر پاس کریں گے جس کے بعد آپ نے ٹرائل کورٹ میں یہ دستاویزات ملزمان کے وکلا کو دینی ہیں، ٹرائل کورٹ کی آرڈر شیٹ میں بھی یہ بات آ جائے گی۔

ملزمان کی شواہد اور دستاویزات کی فراہمی کی درخواست پر دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 25 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

نور مقدم قتل کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعدازاں عدالت میں پیش کردہ پولیس چالان میں کہا گیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔

وقوعہ کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم نے جان بچانے کیلئے 6 مرتبہ فرار ہونے کی کوشش کی، پولیس

چالان میں کہا گیا کہ نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔

ملزم نے بتایا کہ نور نے اس کی شادی کی پیشکش مسترد کردی تھی جس پر اس نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، جبری قید پر وہ انتہائی غصے میں آگئیں اور ظاہر کو نتائج سےخبردار کیا۔

مقتولہ نے ظاہر کو دھمکی دی کہ پولیس میں جا کر اس کے خلاف شکایت درج کروائیں گی، بیان کے مطابق ملزم نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا اور ملازمین کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیں نہ نور کو گھر سے باہر جانے دیں۔

چالان میں کہا گیا کہ نور کمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن سیکیورٹی گارڈ افتخار نے انہیں باہر نہیں جانے دیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔

مزید پڑھیں: نور مقدم کیس: تھراپی ورکس کے مالک کی ظاہر جعفر کے خلاف اندراجِ مقدمہ کی درخواست

کال ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے چالان میں کہا گیا کہ نور کو قتل کرنے سے قبل ظاہر نے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ، 3 بجے، 6 بج کر 35 منٹ اور شام 7 بج کر 29 منٹ پر اپنے والدین سے رابطہ کیا۔

دوسری جانب شوکت مقدم کی درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان کے پوچھنے پر ظاہر جعفر نے کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں۔

تاہم 20 جولائی کو رات 10 بجے انہیں کوہسار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی قتل ہوگئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں اس گھر پہنچا تو اپنی بیٹی کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی‘۔

25 جولائی کو پولیس نے نور مقدم کے قتل کے مشتبہ ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔

اس کے علاوہ اس کیس میں تھراپی ورکس کے مالک اور ملازمین بھی گرفتار ہوئے جنہیں عدالت نے 23 اگست کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

مقامی عدالت سے ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن 29 ستمبر کو ہائی کورٹ نے بھی ملزم کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔

جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں