نور مقدم کیس: مقدمہ نمٹانے میں تاخیر سے اضطراب بڑھتا ہے، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2021
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ نور مقدم کا قتل ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے—فائل فوٹو: سپریم کورٹ
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ نور مقدم کا قتل ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے—فائل فوٹو: سپریم کورٹ

‏سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست پر استغاثہ کو ‏آئندہ سماعت میں عصمت ذاکر کی حد تک شواہد پیش کرنے کی ہدایت کردی اور ریمارکس دیئے کہ مقدمہ نمٹانے میں تاخیر سے اضطراب بڑھتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس قاضی امین پر مشتمل بینچ نے ظاہر جعفر کی درخواست پر سماعت کی۔

خیال رہے کہ 29 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ 7 اکتوبر تک مؤخر

جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، مذکورہ درخواست پر آج مختصر سماعت ہوئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ‏عصمت جعفر کا اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہاں ذکر ہے؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ‏عصمت جعفر کا اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں ذکر ہی موجود نہیں۔

دورانِ سماعت وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ‏قتل کا مقدمہ ظاہر جعفر کے خلاف ہے جبکہ ان کے والدین قتل کے وقت کراچی میں موجود تھے۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ‏ہم صرف نور مقدم کیس کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ نور مقدم کا قتل ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے، ‏ہمیں مقتولہ کے اہل خانہ سے ہمدردی ہے، ‏کیس کے حقائق کو سمجھنے کے لیے معلومات لے رہے ہیں۔

وکیل ملزم خواجہ حارث نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ابھی تک ‏فرانزک رپورٹس بھی موصول نہیں ہوئی ہیں۔

ملزم کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ‏ہائی کورٹ نے 2 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیا جس سے شفاف ٹرائل کا حق متاثر ہوگا۔

تاہم اس پر عدالت نے کہا کہ ‏شفاف ٹرائل کا حق لازمی ہے لیکن مقدمہ نمٹانے میں تاخیر سے اضطراب بڑھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:نورمقدم قتل کیس: ملزم کے والدین کے وکیل کے پولیس تفتیش کی خامیوں پر دلائل

سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بتایا کہ ‏ان کے خاندان میں فوتگی ہوگئی ہے جس کی وجہ انہیں فوری طور پر لاہور روانہ ہونا ہے۔

چنانچہ ‏عدالت نے ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت کیس میں استغاثہ کو عصمت ذاکر کی حد تک شواہد پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 18 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

نور مقدم قتل کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعدازاں عدالت میں پیش کردہ پولیس چالان میں کہا گیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔

وقوعہ کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم نے جان بچانے کیلئے 6 مرتبہ فرار ہونے کی کوشش کی، پولیس

چالان میں کہا گیا کہ نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔

ملزم نے بتایا کہ نور نے اس کی شادی کی پیشکش مسترد کردی تھی جس پر اس نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، جبری قید پر وہ انتہائی غصے میں آگئیں اور ظاہر کو نتائج سےخبردار کیا۔

مقتولہ نے ظاہر کو دھمکی دی کہ پولیس میں جا کر اس کے خلاف شکایت درج کروائیں گی، بیان کے مطابق ملزم نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا اور ملازمین کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیں نہ نور کو گھر سے باہر جانے دیں۔

چالان میں کہا گیا کہ نور کمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن سیکیورٹی گارڈ افتخار نے انہیں باہر نہیں جانے دیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔

مزید پڑھیں:نور مقدم کیس: تھراپی ورکس کے مالک کی ظاہر جعفر کے خلاف اندراجِ مقدمہ کی درخواست

کال ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے چالان میں کہا گیا کہ نور کو قتل کرنے سے قبل ظاہر نے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ، 3 بجے، 6 بج کر 35 منٹ اور شام 7 بج کر 29 منٹ پر اپنے والدین سے رابطہ کیا۔

دوسری جانب شوکت مقدم کی درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان کے پوچھنے پر ظاہر جعفر نے کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں۔

تاہم 20 جولائی کو رات 10 بجے انہیں کوہسار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی قتل ہوگئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں اس گھر پہنچا تو اپنی بیٹی کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی‘ ۔

25 جولائی کو پولیس نے نور مقدم کے قتل کے مشتبہ ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔

اس کے علاوہ اس کیس میں تھراپی ورکس کے مالک اور ملازمین بھی گرفتار ہوئے جنہیں عدالت نے 23 اگست کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

مقامی عدالت سے ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن 29 ستمبر کو ہائی کورٹ نے بھی ملزم کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔

جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں