نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کی والدہ کی درخواست ضمانت منظور

اپ ڈیٹ 18 اکتوبر 2021
ملزم کے والدین نے 6 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کی تھی—فائل فوٹو: ڈان نیوز
ملزم کے والدین نے 6 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کی تھی—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت بی بی کی ضمانت منظور کرتے ہوئے 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس قاضی امین اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے ملزم کے والدین کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

خیال رہے کہ 29 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔

جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: استغاثہ کو عصمت ذاکر کی حد تک شواہد پیش کرنے کی ہدایت

مذکورہ درخواست کی گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے استغاثہ کو عصمت ذاکر کی حد تک شواہد پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

آج سماعت میں عدالت نے ریمارکس دیے کہ ‏ضمانت کے مقدمے میں رائے دے کر ہم پروسیکیوشن کے مقدمے کو تو ختم نہیں کر سکتے۔

‏جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ممکن ہے کالز میں والد قتل کا کہہ رہا ہو، یہ بھی ممکن ہے روک رہا ہو۔

‏وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ بھی ممکن ہے بیٹا باپ کو سچ بتا ہی نہ رہا ہو۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا ملزم کی ذہنی حالت جانچنے کے لیے میڈیکل کروایا گیا؟ جس پر مدعی کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ ملزم کا صرف منشیات کا ٹیسٹ کروایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام 12 ملزمان پر فرد جرم عائد

‏جسٹس قاضی محمد امین نے ریمارکس دیے کہ ملزم انکار کرے تو ذہنی کیفیت نہیں دیکھی جاتی، ذہنی کیفیت کا سوال صرف اقرار جرم کی صورت میں اٹھتا ہے۔

‏جسٹس منصور علی شاہ نے دریافت کیا کہ ٹرائل کی کیا صورت حال ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ‏فرد جرم عائد ہو چکی 8 ہفتے میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بظاہر ماں کے جرم میں شامل ہونے کے شواہد نہیں ہیں جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ماں نے دو کالز گارڈ کو کی تھیں۔

‏عدالت نے کہا کہ ایک سفاک قتل کو چھپانے کی کوشش کی گئی، وقوعہ کے بعد بھی ملزمان کا رویہ دیکھا جاتا ہے۔

‏ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ملزم کی والدہ کی جانب سے کی گئیں 11 کالز بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ جائزہ لیں گے کہ پولیس کو بلانے کی بجائے تھراپی ورکس کا کیوں کہا گیا؟

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کیلئے 14 اکتوبر کی تاریخ مقرر

عدالت نے کہا کہ نورمقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم کی والدہ کا کردار ثانوی ہے۔

‏بعدازاں سپریم کورٹ نے ملزمان کے وکیل کی اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی۔

عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے ٹرائل سے متعلق فیصلے میں مداخلت نہیں کرے گی، ٹرائل کورٹ ملزمان کو شفاف ٹرائل کا پورا حق فراہم کرے۔

جس کے بعد سپریم کورٹ نے 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت بی بی کی ضمانت منظور کرلی۔

البتہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر کی درخواست ضمانت واپس لینے کی بنیاد پر مسترد کردی۔

نور مقدم قتل کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعدازاں عدالت میں پیش کردہ پولیس چالان میں کہا گیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔

وقوعہ کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم نے جان بچانے کیلئے 6 مرتبہ فرار ہونے کی کوشش کی، پولیس

چالان میں کہا گیا کہ نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔

ملزم نے بتایا کہ نور نے اس کی شادی کی پیشکش مسترد کردی تھی جس پر اس نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، جبری قید پر وہ انتہائی غصے میں آگئیں اور ظاہر کو نتائج سےخبردار کیا۔

مقتولہ نے ظاہر کو دھمکی دی کہ پولیس میں جا کر اس کے خلاف شکایت درج کروائیں گی، بیان کے مطابق ملزم نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا اور ملازمین کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیں نہ نور کو گھر سے باہر جانے دیں۔

چالان میں کہا گیا کہ نور کمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن سیکیورٹی گارڈ افتخار نے انہیں باہر نہیں جانے دیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔

مزید پڑھیں:نور مقدم کیس: تھراپی ورکس کے مالک کی ظاہر جعفر کے خلاف اندراجِ مقدمہ کی درخواست

کال ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے چالان میں کہا گیا کہ نور کو قتل کرنے سے قبل ظاہر نے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ، 3 بجے، 6 بج کر 35 منٹ اور شام 7 بج کر 29 منٹ پر اپنے والدین سے رابطہ کیا۔

دوسری جانب شوکت مقدم کی درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان کے پوچھنے پر ظاہر جعفر نے کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں۔

تاہم 20 جولائی کو رات 10 بجے انہیں کوہسار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی قتل ہوگئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں اس گھر پہنچا تو اپنی بیٹی کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی‘۔

25 جولائی کو پولیس نے نور مقدم کے قتل کے مشتبہ ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔

اس کے علاوہ اس کیس میں تھراپی ورکس کے مالک اور ملازمین بھی گرفتار ہوئے جنہیں عدالت نے 23 اگست کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

مقامی عدالت سے ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن 29 ستمبر کو ہائی کورٹ نے بھی ملزم کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔

جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں