ایف اے ٹی ایف کا پاکستان کو بدستور گرے لسٹ میں رکھنے کا اعلان

اپ ڈیٹ 22 اکتوبر 2021
جون میں پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا—فوٹو: ایف اے ٹی ایف
جون میں پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا—فوٹو: ایف اے ٹی ایف

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے تین روزہ اجلاس کے بعد اعلان کیا کہ پاکستان نے نئے ایکشن پلان میں بہتری دکھائی ہے لیکن مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور وہ بدستور گرے لسٹ میں رہے گا۔

ایف اے ٹی ایف کے صدر ڈاکٹر مارکوس پلییئر نے تین روزہ اجلاس کے بعد ورچوئل پریس کانفرنس میں کہا کہ بوٹسوانا اور موریشس کو گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے اور انہیں مبارک ہو۔

پاکستان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان بدستور نگرانی میں رہے گا، پاکستانی حکومت نے 34 میں سے 30 نکات میں بہتری دکھائی ہے’۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جون میں ایف اے ٹی ایف کے ریجنل شراکت دار اے پی جی کی نشان دہی پر ایکشن پلان میں بڑی حد تک منی لانڈرنگ کے مسائل تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مجموعی طور پر اس نئے ایکشن پلان پر بہتر کار کردگی دکھا رہا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے صدر نے کہا کہ ایکشن پلان کے 7 میں سے 4 نکات پر عمل درآمد کیا گیا ہے، اس میں حکام کی فنانشل نگرانی اور بین الاقوامی تعاون کے لیے قانونی ترامیم شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل پاکستان کے ایکشن پلان میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کے مسئلے پر توجہ شامل تھی اور اس کے 27 میں سے 26 نکات پر عمل کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان نے کئی اہم اقدامات کیے ہیں لیکن اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے گروپس کی سینئر قیادت کے خلاف تفتیش اور سزائیں دینے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے’۔

ایف اے ٹی ایف کے صدر نے کہا کہ یہ تمام تبدیلیاں حکام کو کرپشن، دہشت گردی سے تحفظ اور جرائم سے مستفید ہونے والے مجرموں کو روکنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے شکر گزار ہیں کہ وہ اس عمل پر بدستور پرعزم ہیں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل افراد کے خلاف کارروائی میں ناکامی پر پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کیا جائے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ پاکستان نے دو ایکشن پلان کے 34 میں سے 30 نکات پر عمل کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس سے پاکستانی حکومت کا عزم ظاہر ہوتا ہے، اس لیے پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی اور ایف اے ٹی ایف دیگر نکات پر عمل درآمد کے لیے زور دیتا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت ایف اے ٹی ایف کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔

مارکوس نے کہا کہ تبدیلی کے لیے آرا شامل کی جائیں گے اور ایف اے ٹی ایف کا اگلا اجلاس اگلے سال فروری میں ہوگا.

ایف اے ٹی ایف کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے وہاں موجود وزیر توانائی حماد اظہر نے ٹویٹر کہا کہ ‘اچھی خبر’ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘منی لانڈرنگ ایکشن پلان کے لیے، ایک سائیکل کے اندر 7 میں سے 4 نکات پورے کیے گئے، یہ پیش رفت ایف اے ٹی ایف کی تاریخ میں غیرمعمولی ہے’۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ‘دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کے خلاف ایکشن پلان کے لیے، 27 میں سے 26 نکات پہلے ہی پورے کئے گئے ہیں، اکثر ممالک کا ماننا ہے کہ ہم نے ایکشن پلان مکمل کرلیا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ اب صرف چند ممالک اکثریت کے ساتھ متفق نہیں ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے لیے فنانسنگ کے ایکشن پلان پر پیش رفت کی ہے۔

حماد اظہر نے بتایا کہ ‘ہم چیلنجز کے حوالے سے اتفاق رائے کے قریب ہیں، ہمارے ٹیکنیکل مؤقف کو بھی جلد ہی تسلیم کیا جائے گا’۔

’ایف اے ٹی ایف اتفاق رائے سے فیصلے کرتا ہے’

پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کے لیے مودی حکومت کی یقین دہانی سے متعلق بھارتی وزیر کے دعوے پر پوچھے گئے سوال پر ایف اے ٹی ایف کے صدر نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف ٹیکنیکل ادارہ ہے اور ‘ہم اپنے فیصلے اتفاق رائے سے کرتے ہیں اور فیصلہ سازی میں صرف ایک ملک نہیں ہوتا’۔

خیال رہے کہ ایف اے ٹی ایف کے گزشتہ اجلاس کے بعد جولائی میں بھارتی خارجہ امور کے وزیر جے شنکر نے کہا تھا کہ مودی کی سربراہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت نے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کو یقینی بنایا ہے۔

جے شکر نے بی جے پی کے رہنماؤں کی خارجہ امور پر تربیت کے لیے منعقدہ ورچوئل اجلاس میں کہا تھا کہ ہماری وجہ سے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی نگرانی میں ہے اور گرے لسٹ میں رکھا گیا ہے۔

مارکوس پلیئر نے بھارت کے وزیر کے بیان پر ردعمل دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایف اے ٹی ایف 39 پہلوؤں پر مشتمل ہے اور پاکستان کے حوالے سے تمام فیصلے مکمل اتفاق رائے سے کیے جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان بدستور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں موجود

ترکی، اردن، مالی گرے لسٹ میں شامل

ایف اے ٹی ایف کے دیگر فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے مارکوس پلیئر نے کہا کہ بوٹسوانا اور موریشس کو گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ زمبابوے نے اپنا ایکشن پلان مکمل کرلیا ہے اور سائٹ انسپکشن کے انتظار میں ہے اور جیسے ہی کووڈ-19 کی صورت حال بہتر ہوگی تو جائزہ لیا جائے گا۔

صدر ایف اے ٹی ایف نے اردن، مالی اور ترکی کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تینوں ممالک نے ایکشن پلان پر اتفاق کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ترکی کے بارے میں 2019 میں جائزہ لیا گیا تھا جہاں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کے سنگین مسائل کی نشان دہی کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ترکی نے چند نکات پر بہتری دکھائی ہے لیکن مسائل موجود ہیں اور انہیں منی لانڈرنگ کیسز اور دہشت گردی سے متعلق فنانسنگ کو مؤثر انداز میں حل کرنے کی ضرورت ہے۔

قبل ازیں ڈاکٹر مارکوس پلییئر کی زیر صدارت ایف اے ٹی ایف کا پلینری ورچوئل اجلاس ہوا جس میں عالمی نیٹ ورک اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، اقوام متحدہ، ایگمونٹ گروپ آف فنانشل انٹیلی جینس یونٹس کے مبصرین سمیت 205 نمائندے شریک ہوئے۔

ایف اے ٹی ایف کی ویب سائٹ کے مطابق ‘ایف اے ٹی ایف کلیدی رپورٹس کو حتمی شکل دے گا، جس میں ورچوئل اثاثوں کی رہنمائی پر نظر ثانی اور ان کو خدمات دینے والے شامل ہیں اور اگلے مرحلے میں ملکیت کی شفافیت کے معیار کو مضبوط کرنے سے متعلق تبادلہ خیال کیا جائے گا’۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ ‘شرکا ایف اے ٹی ایف کی انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے انسداد کے قوانین یا ان پر عمل درآمد کی نشان دہی کے لیے ہونے والے سروے کے نتائج پر بھی بحث کریں گے’۔

ویب سائٹ میں بتایا گیا تھا کہ ‘ایف اے ٹی ایف منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خاتمے کے لیے ان کے اقدامات میں اسٹریٹجک خامیوں کے ساتھ حدود کی نشان دہی کے نکتہ نظر کی تجدید کرے گا’۔

پاکستان کو 2018 میں گرے لسٹ میں شامل کیا گیا

خیال رہے کہ پاکستان 2018 سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں موجود ہے اور اس کی وجہ انسداد دہشت گردی کے لیے فنڈنگ اور انسداد منی لانڈرنگ کے حوالے سے خامیوں کی موجودگی قرار دیا گیا ہے۔

ایف اے ٹی ایف نے رواں برس جون میں منعقدہ اپنے اجلاس میں پاکستان کو بدستور گرے لسٹ میں رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے 27 میں سے 26 نکات پر بہتری دکھائی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان، گرے لسٹ سے اخراج کیلئے پُرامید

ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکوس پلیئر نے کہا تھا کہ پاکستان بدستور نگرانی میں رہے گا، پاکستانی حکومت نے انسداد دہشت گردی فنانسگ نظام کو مضبوط اور مؤثر بنانے کے لیے بہتر کام کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے 27 میں سے 26 نکات پر کام کیا ہے تاہم ایک پوائنٹ پر کام کرنا ضروری ہے۔

صدر ایف اے ٹی ایف نے کہا تھا کہ فنانشل ٹیرارزم کے منصوبے پر کارروائی کی ضرورت ہے، جس میں اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل رہنماؤں اور کمانڈرز کے خلاف تفتیش اور سزائیں دلانا شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2019 میں ایف اے ٹی ایف کے ریجنل پارٹنر اے پی جی اے نے پاکستان کے انسداد منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گردی فنانسگ سسٹم کے حوالے سے اقدامات کی نشان دہی کی تھی لیکن اس کے بعد بہتری آئی ہے اور کیسز بنانے کے لیے فنانشل انٹیلی جنس کا استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان تاحال کئی شعبوں میں ایف اے ٹی ایف کے عالمی سطح کے معیارات پر مؤثر عمل درآمد میں ناکام رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ منی لانڈرنگ کے خدشات اب بھی بہت زیادہ ہیں، جو کرپشن اور منظم جرائم کے خطرات ہیں، اسی لیے ایف اے ٹی ایف پاکستانی حکومت کے ساتھ ان شعبوں میں کام کررہا ہے جہاں بہتری کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے اہم پیشرفت ہوئی ہے، دفتر خارجہ

مارکوس پلیئر نے کہا تھا کہ آخری نکتے پر اولین ایکشن پلان کے مطابق کام ہوا تھا لیکن نام فہرست سے نہیں نکالا گیا کیونکہ اس کے برابر ایک اور ایکشن پلان بھی دیا گیا تھا۔

اس سےقبل منی لانڈرنگ سے متعلق ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کے خلاف ایف اے ٹی ایف کی 40 تکنیکی سفارشات میں سے 21 میں پاکستان کی درجہ بندی بہتر ظاہر کردی تھی۔

اے پی جی نے خاطر خواہ نتائج کے لیے پاکستان کی درجہ بندی کو بہتر قرار دیتے ہوئے ’مزید بہتری پر مبنی فالو اپ‘ کیٹیگری میں رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

میوچوئل ایویلویشن آف پاکستان سے متعلق دوسری فالو اپ رپورٹ میں ملک کو ایک کیٹیگری میں تنزلی کا شکار دکھایا گی تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے 5 معاملات میں بہتری دکھائی، 15 دیگر معاملات میں ’غیر معمولی بہتری‘ کا مظاہرہ کیا جبکہ ایک معاملے میں ’جزوی طور پر ایف اے ٹی ایف کی ہدایت پر عمل‘ کیا۔

اے پی جی نے کہا تھا کہ مجموعی طور پر پاکستان اب 7 سفارشات کی مکمل طور پر تعمیل کرچکا ہے اور 24 دیگر معاملات میں بڑی حد تک تعمیل کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان 7 سفارشات پر ’جزوی طور پر تعمیل‘ کر رہا ہے اور 40 میں سے 2 سفارشات پر بالکل عمل نہیں کر رہا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ اس اعتبار سے پاکستان، فیٹف کی 40 سفارشات میں سے 31 پر تعمیل کرچکا ہے یا کر رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں